کٹ گئے ہم تو حبیبوں سے اجازت لے کر
کٹ گئے ہم تو حبیبوں سے اجازت لے کر
ہم سے ملتا ہے رقیبوں سے اجازت لے کر
نہیں چارہ تو ہے تہذیب اسی میں اے جاں
آج مر جائیں طبیبوں سے اجازت لے کر
ہم تو مرتے رہے شمشاد قدوں پر اکثر
کیا جئیں آج صلیبوں سے اجازت لے کر
تم نے پوچھا تو عنایت ہے تمہاری ورنہ
کون جاتا ہے غریبوں سے اجازت لے کر
زندگی کیوں ہے تو اب مل کے پشیماں ہم سے
تم کو آنا تھا نصیبوں سے اجازت لے کر