آر پی شوخ کی غزل

    دل کی باتیں ہیں یہ بوجھل نہ بناؤں اس کو

    دل کی باتیں ہیں یہ بوجھل نہ بناؤں اس کو مصلحت یہ ہے کہ کچھ بھی نہ بتاؤں اس کو شہر میں جا کے کہوں کس سے برا حال اپنا کوئی اپنا ہو تو احوال سناؤں اس کو آ بسیں دل میں بھی روزی کی تمنائیں اب اب کہاں جاؤں کہ دنیا سے چھپاؤں اس کو ہر گلی کوچۂ قاتل ہے دل ایذا طلب کوئی مشکل ہو تو آسان ...

    مزید پڑھیے

    وہ تو حشر تھا مگر اس کی اب وہ شباہتیں بھی چلی گئیں

    وہ تو حشر تھا مگر اس کی اب وہ شباہتیں بھی چلی گئیں جو رہیں تو شہر میں کیا رہیں کہ قیامتیں بھی چلی گئیں ترے دم سے تھیں سبھی رونقیں وہ حبیب تھے کہ رقیب تھے وہ قرابتیں تو گئی ہی تھیں وہ رقابتیں بھی چلی گئیں ترا قرب گرچہ تھا جاں گسل وہی قرب تھا مری زندگی ترے بعد مرگ و حیات کی وہ ...

    مزید پڑھیے

    شہروں میں ناچتا ہوا جنگل ہے اور میں

    شہروں میں ناچتا ہوا جنگل ہے اور میں صدیوں کے بعد بھی وہی قاتل ہے اور میں پاؤں کی گرد ہو چکیں کتنی مسافتیں اب بھی مگر وہ دورئ منزل ہے اور میں سمجھوں اب اور کیا تجھے کافر ادا نظام برسوں سے ایک وعدۂ باطل ہے اور میں پوچھو پسند تو ہے وہی چشم نیم باز ویسے ہر ایک گام پہ مقتل ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    غم تو یہ بھی ہے کہ تقدیر بھی روئی برسوں

    غم تو یہ بھی ہے کہ تقدیر بھی روئی برسوں ہائے وہ زلف گرہ گیر بھی روئی برسوں دل کسی ساعت گریاں کا نوشتہ جس کی ہوئی تفسیر تو تفسیر بھی روئی برسوں آب دیدہ بھی تھا میں نقش بہ دیوار بھی تھا مجھ کو دیکھو کہ یہ تصویر بھی روئی برسوں اس کو بھی کرنا پڑی دشت نوردی کیا کیا پاؤں پڑ کر مرے ...

    مزید پڑھیے

    نہ تلافیاں ہی مانگیں نہ وفا نہ پیار مانگیں

    نہ تلافیاں ہی مانگیں نہ وفا نہ پیار مانگیں چلو آج اس سے کھویا ہوا اعتبار مانگیں ترے شہر میں ہمیشہ یہی قلتیں سہی ہیں کبھی اس سے طوق مانگیں کبھی اس سے داد مانگیں ترے عہد میں نہ جینا ترے عہد میں نہ مرنا ہمیں اختیار ہو تو کوئی اختیار مانگیں تری بے رخی کے صدقے تری بے رخی نہیں ہے یہی ...

    مزید پڑھیے

    جب ایک گلعذار کی صحبت میں آ گیا

    جب ایک گلعذار کی صحبت میں آ گیا عارض کا رنگ میری طبیعت میں آ گیا اپنی رضا سے جس نے مراسم بڑھائے تھے عرض طلب پہ وہ بھی نزاکت میں آ گیا جی کے ضرر کو کون اٹھاتا ہے آج کل اس دل کو داد دے کہ محبت میں آ گیا پھرتا ہوں دہر میں لیے یہ دوستی کا ہاتھ لگتا ہے میں بھی کوئے ملامت میں آ گیا بے ...

    مزید پڑھیے

    کیوں جوئے رواں آ کے یوں آنکھوں میں کھڑی ہے

    کیوں جوئے رواں آ کے یوں آنکھوں میں کھڑی ہے لگتا ہے پہاڑوں پہ کہیں برف پڑی ہے اے درد کبھی اٹھ بھی سہی تنگئ دل سے مدت سے در دل پہ کوئی یاد کھڑی ہے منزل کو چلے یا کسی مقتل کو چلے ہیں ہر راہ یوں لگتی ہے کہ زنجیر پڑی ہے یوں ہی تو نہیں بیٹھ گئے جھاڑ کے دامن محرومیٔ تقدیر سے امید بڑی ...

    مزید پڑھیے

    زندگی اپنی ہوئی یار کی فطرت کی طرح

    زندگی اپنی ہوئی یار کی فطرت کی طرح ہم بھی کل ہوں کہ نہ ہوں اس کی عنایت کی طرح وقت ہم کو یہ برے دن نہ دکھاتا اے کاش ہم بھی اٹھ جاتے زمانے سے محبت کی طرح ہم تو ہر لمحے کو دیتے رہے سانسوں کا حساب ہم پہ ٹوٹا ہے ہر اک لمحہ قیامت کی طرح گل کھلائے گا یہ مقتول لہو دھرتی پر کسی رخسار پہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ حادثہ ہے مگر اس طرف ہوا بھی نہیں

    یہ حادثہ ہے مگر اس طرف ہوا بھی نہیں جدا ہوا بھی تو اس سے جو جانتا بھی نہیں کبھی تو سوچ تجھے کتنا سوچتا ہوگا وہ غم زدہ جو تری سمت دیکھتا بھی نہیں یہ دل نے روٹھ کے کن مشکلوں میں ڈال دیا اسی کو چاہنا اور اس سے بولنا بھی نہیں ہمیں تو نیند میں سپنوں کی بھی مناہی ہے دریچے بند بھی رکھنے ...

    مزید پڑھیے

    تھا بھلانا جنہیں پھر بھی وہی غم یاد آئے

    تھا بھلانا جنہیں پھر بھی وہی غم یاد آئے ہم ملے بھی تو زمانے کے ستم یاد آئے کار دنیا میں نہ شبنم ہے نہ عنبر نہ گلاب دہر دیکھا تو تری زلف کے خم یاد آئے یاد کر کے تمہیں رونے کا زمانہ بھی گیا آج رویا ہوں تو سمجھا ہوں کہ تم یاد آئے بھر کے جھیلوں کو چلا جاتا ہے ساون جیسے اس طرح یاد ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3