آنکھوں آنکھوں لپٹی ہوئی حیرانی ہے
آنکھوں آنکھوں لپٹی ہوئی حیرانی ہے
آئینہ آئینہ رو گردانی ہے
خانہ داری پر ہے خلوت کا موسم
وقت گزاری قصہ اور کہانی ہے
مشکل تو یہ ہے اب مشکل کوئی نہیں
جو بھی صورت ہے جانی پہچانی ہے
سات بکھیڑے سات جھمیلے سب کے ساتھ
چودہ گھر میں بکھری ایک کہانی ہے
قصوں سے ہم زاد نکل آیا باہر
حال کے پردے پر تصویر پرانی ہے
خود مرضی ہے وار ہمارے دل پارے
ضد پر ہے جو شے وہ خود فرمانی ہے
ساحل ساحل بازو بریدہ بیٹھے ہیں
غرقابی پر ٹخنے ٹخنے پانی ہے
عہد ستارہ جنگ ہے منظر یابی پر
دل دل رحمانیؔ وحشت سامانی ہے