اسے تب دیکھتے شاداب تھا جب
اسے تب دیکھتے شاداب تھا جب
وہ صحرا ہر طرف خوش خواب تھا جب
کھڑے خوش فعلیاں کرتے تھے بگلے
ندی میں گھٹنے گھٹنے آب تھا جب
امیدی سیپیاں عرفان سی تھیں
سمندر فکر کا پایاب تھا جب
چمکتی خوشبوئیں تھیں مچھلیوں کی
جزیرہ خواب کا دشتاب تھا جب
قدم خود سے بڑھاتے تھے نہ رستے
برستا چار سو کہراب تھا جب
سبھی چہرے اجالا سوچتے تھے
ہماری آنکھوں پہ نقشاب تھا جب
تھیں ہم تعبیر رحمانیؔ کی باہیں
بدن ہم خواب کا کمخواب تھا جب