چند لا خطاب آنکھیں چند بے لقب چہرے

چند لا خطاب آنکھیں چند بے لقب چہرے
حسرتوں کے آئینے بے حسب نسب چہرے


پارے ثابت و سالم آئنوں میں ہیں جب کہ
ہوتے جاتے ہیں آخر مسخ کس سبب چہرے


پانیوں نے بالآخر ریشہ ریشہ کر ڈالا
عکس ریزیاں کب تک کرتے جاں بہ لب چہرے


ڈوب جب گئیں آنکھیں ساتھ ساتھ سورج کے
نکلے سیر کرنے کو گھاٹیوں سے تب چہرے


آنکھ پر نہ رکھتے تھے کل کسی کو لیکن اب
موسموں کے آگے ہیں کیسے با ادب چہرے


کون خوش نگاہی کا دے ثبوت رحمانیؔ
آئنہ گزیدہ ہیں آج سب کے سب چہرے