جل گئیں آنکھیں سبھی خوش رنگ چہرے اڑ گئے
جل گئیں آنکھیں سبھی خوش رنگ چہرے اڑ گئے
ایسی گرمی تھی کہ آئینوں کے پارے اڑ گئے
شام تک بھی جب کوئی نکلا نہ دانہ ڈالنے
آنکھ بھر بھر کر منڈیروں سے پرندے اڑ گئے
خوشبوؤں کے رتھ سے اترے بال پوچھا اور پھر
تتلیوں کے دوش پر کافوری لمحے اڑ گئے
بے خیالی مجھ کو میری سوچ تک لے آئی اور
چونکتے ہی میرے کاندھے سے فرشتے اڑ گئے
سب کے سب کل حرف حرف الماریوں میں بند تھے
کس طرح آخر کتابوں سے نوشتے اڑ گئے
آ گیا خدشات کی باہوں میں یادوں کا بدن
اک دھماکہ اور خوابوں کے پرخچے اڑ گئے
تھی بڑی سفاک میرے عہد کی گونگی ہوا
بس یہی کہ گردنوں سے سارے رشتے اڑ گئے