گرم یادوں کی ردا سرد رتوں کی آواز
گرم یادوں کی ردا سرد رتوں کی آواز
بھیگی آنکھوں کی نوا سات سروں کی آواز
ترچھے سورج نے سنی سایہ درازی کی دعا
اور اونچی ہوئی کوتاہ قدوں کی آواز
تب کہیں جا کے ہوئیں پھر مری جھلمل پلکیں
ریزہ ریزہ ہوئی جب شیشہ گروں کی آواز
میرے ہونٹوں پہ خموشی کا نہ کتبہ لکھنا
گھٹ کے رہ جائے گی آواز گروں کی آواز
تھی قبیلے میں سحر بند نکلتی کیسے
دائراتی ہی رہی خیرہ سروں کی آواز