ایماں کا تقاضہ ہے کہ خوددار بنو
ایماں کا تقاضہ ہے کہ خوددار بنو زر داروں کی دہلیز پہ سجدہ نہ کرو زہراب ملے یا رسن و دار عبیدؔ ہرگز کسی قاتل کو مسیحا نہ کہو
ایماں کا تقاضہ ہے کہ خوددار بنو زر داروں کی دہلیز پہ سجدہ نہ کرو زہراب ملے یا رسن و دار عبیدؔ ہرگز کسی قاتل کو مسیحا نہ کہو
ہم دل کا ہر اک زخم چھپا لیتے تھے ہر ایک کو سینے سے لگا لیتے تھے اب دوست بھی ہیں دشمن جانی اپنے دشمن کو بھی ہم دوست بنا لیتے تھے
شعلوں کی طرح ہیں کبھی شبنم کی طرح ہیں زخموں کی صورت کبھی مرہم کی طرح کوئی بھی نہیں جس پہ بھروسہ کیجے یاں لوگ بدل جاتے ہیں موسم کی طرح
آلام و مصائب سے لڑا کرتے ہیں ہر رنج کو ہنس ہنس کے سہا کرتے ہیں ہر غم ہمیں پیغام طرب دیتا ہے ہم غم کے طلب گار رہا کرتے ہیں
آشوب زمانہ سے ہے ڈرنا کیسا بزدل کی طرح شکوہ ہے کرنا کیسا مرنا تو بہرحال ہے اک روز عبیدؔ مرنے سے مگر پہلے ہی مرنا کیسا
احباب نے سو طرح ہمیں خوار کیا غم اتنے دیئے ہم کو کہ بیمار کیا جو زخم ملا دل میں چھپایا اس کو چہرے کو نہ ہم نے مگر اخبار کیا
ہجرت تمہیں کرنی ہے مہاجر کی طرح سمجھو نہ اسے منزل آخر کی طرح دنیا جسے کہتے ہیں سرائے ہے عبیدؔ رہنا ہے یہاں ایک مسافر کی طرح