Obaidur Rahman

عبید الرحمان

عبید الرحمان کی غزل

    پر کیف کہیں کے بھی نظارے نہ رہیں گے

    پر کیف کہیں کے بھی نظارے نہ رہیں گے دنیا میں اگر عشق کے مارے نہ رہیں گے دنیائے محبت میں چراغاں نہ ملے گا پلکوں پہ اگر اشک ہمارے نہ رہیں گے تم چھوڑ کے مت جاؤ مجھے شہر بلا میں ورنہ مرے جینے کے سہارے نہ رہیں گے طے کر لو سفر شب کا کہ موقع ہے غنیمت پھر چرخ بریں پہ یہ ستارے نہ رہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہماری زیست کا اک ایک باب کھل جائے

    ہماری زیست کا اک ایک باب کھل جائے خدایا ہم پہ ہماری کتاب کھل جائے پھر اس کے بعد یہ دشت و دمن بھلا کیا ہیں جو غور‌ و فکر کریں آفتاب کھل جائے زمیں پہ راستہ آئے نظر تو کیا ہے عجب یہ راستہ تو میاں زیر آب کھل جائے خطیب چیختا ہے روز ہی سر منبر مجال کیا ہے جو ہم پر خطاب کھل جائے نہ ...

    مزید پڑھیے

    بغیر سوچے ہوئے عرض حال کرتے رہے

    بغیر سوچے ہوئے عرض حال کرتے رہے جواب کچھ نہ ملا ہم سوال کرتے رہے کبھی تو ڈوبے ندی میں مگر کبھی ہم نے سمندروں کو اچھالا کمال کرتے رہے اسی سے نام ملا ہے اسی سے عزت بھی جو کام سہل بہت تھے محال کرتے رہے کھڑے رہے یوں ہی آنکھوں میں اشک جاری کیے ہر ایک لمحۂ شب لا زوال کرتے رہے کبھی ...

    مزید پڑھیے

    عجیب بات ہے بیمار ہے نہیں بھی ہے

    عجیب بات ہے بیمار ہے نہیں بھی ہے یہ دل تمہارا طلب گار ہے نہیں بھی ہے ہیں ممکنات نہاں اس ادا میں شوخی میں لبوں پہ ان کے جو انکار ہے نہیں بھی ہے ہے کیسا عزم سفر کیسی چاہت منزل سفر کو کارواں تیار ہے نہیں بھی ہے یہ اپنی اپنی سمجھ ہے یہ اپنا اپنا شعور سفر حیات کا دشوار ہے نہیں بھی ...

    مزید پڑھیے

    ایک مدت سے جو سینے میں بسا ہے کیا ہے

    ایک مدت سے جو سینے میں بسا ہے کیا ہے کرب احساس ہے یا کرب انا ہے کیا ہے دور حاضر میں ہر اک شخص ہے کیوں سہما ہوا دل میں جو خوف ہے وہ خوف فنا ہے کیا ہے مجھ کو اس لفظ کا مفہوم بتا دو یارو دوستی نام ہے جس کا وہ جفا ہے کیا ہے بات مطلب کی کہوں اس سے مگر پہلے ذرا یہ تو معلوم ہو وہ خوش ہے خفا ...

    مزید پڑھیے

    منزلیں اور بھی ہیں وہم و گماں سے آگے

    منزلیں اور بھی ہیں وہم و گماں سے آگے ہم کو کرنا ہے سفر قید مکاں سے آگے پیکر شعر کو ملبوس عطا کیا کیجے جب تخیل کی ہو پرواز بیاں سے آگے آب اور خاک کی یہ بزم ہمیں کیا راس آتی ہم کو جانا تھا ستاروں کے جہاں سے آگے کب تلک دیر و حرم کی یہ حدیث بے سود مسئلے اور ہیں ناقوس و اذاں سے ...

    مزید پڑھیے

    بڑے ہی ناز سے لایا گیا ہوں

    بڑے ہی ناز سے لایا گیا ہوں میں کاندھا دے کر اٹھوایا گیا ہوں فرشتو یوں نہ مجھ سے پیش آؤ سندیسہ بھیج بلوایا گیا ہوں خبر جس کی تھی وہ سارے مناظر قریب مرگ دکھلایا گیا ہوں گنوائی زندگی کی صبح کیسے بہ وقت شام بتلایا گیا ہوں جہاں سے پائی ہے سب نے فضیلت اسی کوچے سے میں آیا گیا ...

    مزید پڑھیے

    شعور تک ابھی ان کی کہاں رسائی ہے

    شعور تک ابھی ان کی کہاں رسائی ہے ابھی تو کتنے خداؤں کی واں خدائی ہے گمان تیرگی رخشندگی پہ ہونے لگا دیار شب نے عجب داستاں سنائی ہے اب اس پہ دور نکل آئے تو خفا کیوں ہو یہ راہ بھی تو تمہی نے ہمیں دکھائی ہے کبھی جو مجھ سے ملے وہ رہے خموش مگر پس سکوت زباں خوب ہم نوائی ہے ہر ایک فکر ...

    مزید پڑھیے

    ہر شکن وقت کی پیشانی پہ رکھی ہوئی ہے

    ہر شکن وقت کی پیشانی پہ رکھی ہوئی ہے ہم نے یوں زندگی آسانی پہ رکھی ہوئی ہے کچھ بھی کہہ لیجئے بنیاد ہے آخر بنیاد کیا ہوا گر یہ زمیں پانی پہ رکھی ہوئی ہے گفتگو کیسے کریں اہل خرد سے کہ وہاں اپنی ہر بات ہی نادانی پہ رکھی ہوئی ہے تم نے سمجھا ہے تو بس اتنا ہمیں کہ ہم نے زندگی یوں ہی ...

    مزید پڑھیے

    تو اب حالت میں اپنی یوں بھی تبدیلی نہیں ہوتی

    تو اب حالت میں اپنی یوں بھی تبدیلی نہیں ہوتی یہ مٹی خون بھی پی کر کبھی گیلی نہیں ہوتی ہوا جاتا ہے قدرت کے اصولوں میں دخیل انساں ہوا اب تو دسمبر میں بھی برفیلی نہیں ہوتی چلو آنکھوں سے اب کے بات کر کے دیکھتے ہیں ہم زباں سے بات تو ہوتی ہے تفصیلی نہیں ہوتی وہ جو محسوس کرتی ہے بیاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3