Obaidur Rahman

عبید الرحمان

عبید الرحمان کی غزل

    ہمیں تو گوشہ نشیں اور جہاں بھی ہونا ہے

    ہمیں تو گوشہ نشیں اور جہاں بھی ہونا ہے یہاں بھی ہونا ہے ہم کو وہاں بھی ہونا ہے نشان بھی ہے لگانا نشاں بھی ہونا ہے مکاں میں رہتے ہوئے لا مکاں بھی ہونا ہے اس احتیاط سے کرنا ہے زندگی اپنی اکیلا چلنا ہے اور کارواں بھی ہونا ہے زمیں میں رکھتے ہیں پیوست اپنی دنیا کو زمیں پہ رہتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو ترے لہجے کی مرے فن میں بسی ہے

    خوشبو ترے لہجے کی مرے فن میں بسی ہے اشعار ہیں میرے تری آواز کے سائے دادی کی کہانی کو ترستے ہیں یہ بچے آنکھوں میں نہیں دور تلک نیند کے سائے جب جسم پر یہ جان ہو اک قرض کی صورت اللہ کسی دشمن کو بھی یہ دن نہ دکھائے پھر تازہ ہواؤں کی پہنچ روح تلک ہو پھر پیار کے موسم کی گھٹا لوٹ کے ...

    مزید پڑھیے

    جستجو کے سفر میں رہتے ہیں

    جستجو کے سفر میں رہتے ہیں ہم کہ پیہم خبر میں رہتے ہیں ہم کو کس کی نظر میں رہنا تھا اور اس کی نظر میں رہتے ہیں آرزو تم ہماری مت کرنا ہم دعا کے اثر میں رہتے ہیں ہم نوا اپنا کوئی بن نہ سکا یوں تو پیہم سفر میں رہتے ہیں کل تلک تھے چراغ راہ گزر بجھ گئے ہم تو گھر میں رہتے ہیں جڑ رہی ہے ...

    مزید پڑھیے

    تصور میں مرے ایسے کوئی چہرہ نکلتا ہے

    تصور میں مرے ایسے کوئی چہرہ نکلتا ہے کہ سوکھی شاخ پر جیسے ہرا پتہ نکلتا ہے فرشتے گھر کی چوکھٹ پر کھڑے رہتے ہیں صف باندھے کہ جب اسکول کو گھر سے کوئی بچہ نکلتا ہے زمیں بھی جیسے میرا امتحاں لینے کے در پے ہے جدھر پاؤں بڑھاتا ہوں ادھر صحرا نکلتا ہے حقیقت ان کی جو بھی ہو عقیدہ ہے یہی ...

    مزید پڑھیے

    گھر کے اندر بھولی بھالی صورتیں اچھی لگیں

    گھر کے اندر بھولی بھالی صورتیں اچھی لگیں مسکراتی گل کھلاتی رونقیں اچھی لگیں جب سسکتی رینگتی سی زندگی دیکھی کہیں پھر خدا کی دی ہوئی سب نعمتیں اچھی لگیں ایک دل سے دوسرے دل تک سفر کرتے رہے رہ گزار شوق میں یہ ہجرتیں اچھی لگیں دھوپ کے لمبے سفر سے لوٹ کے آئے جو گھر بند کمرے میں سکوں ...

    مزید پڑھیے

    یوں لگ رہا ہے جیسے گماں ٹوٹنے کو ہے

    یوں لگ رہا ہے جیسے گماں ٹوٹنے کو ہے یعنی حقیقتوں کا جہاں ٹوٹنے کو ہے خواب و خیال و فکر کی رعنائیاں لیے کاغذ پہ میرا حرف بیاں ٹوٹنے کو ہے جب اس کے بعد دائمی اک گھر ہے منتظر کیا غم جو عارضی سا مکاں ٹوٹنے کو ہے جو فیصلہ ہوا ہے عدالت میں حق طرف حیران عقل ہے یہ زباں ٹوٹنے کو ہے پڑھ ...

    مزید پڑھیے

    رہ سفر میں رہے اور حیات سے گزرے

    رہ سفر میں رہے اور حیات سے گزرے کہ ایک رنگ میں کتنے جہات سے گزرے بڑے سکون سے ہم احتیاط سے گزرے قدم جما کے چلے کائنات سے گزرے ہے کوئی عزم جواں اور نہ کچھ جنوں خیزی بے دست و پا ہی رہے ممکنات سے گزرے یقین دل میں رہا تیری دل ربائی کا سو جاگ جاگ کے ہم ساری رات سے گزرے کوئی نتیجہ کہاں ...

    مزید پڑھیے

    کہانی کچھ بھی نہیں تھی بیاں زیادہ تھا

    کہانی کچھ بھی نہیں تھی بیاں زیادہ تھا ذرا سی آگ لگی تھی دھواں زیادہ تھا وہ کارواں میں نہ تھا ایسی کوئی بات نہیں بچھڑ گیا تھا کہ وہ بد گماں زیادہ تھا بس اس سبب سے نہ راس آ سکی ہمیں یہ زمیں کہ اپنے ذہن میں یہ آسماں زیادہ تھا میں اس کے ساتھ سفر کر سکا نہ دور تلک کہ لفظ لفظ وہ مجھ پر ...

    مزید پڑھیے

    پہلے کچھ دن مرے زخموں کی نمائش ہوگی

    پہلے کچھ دن مرے زخموں کی نمائش ہوگی پھر مرے حال پہ اس بت کی نوازش ہوگی ہاں بظاہر تو دھرا جائے گا قاتل لیکن پس پردہ اسی قاتل کی سفارش ہوگی پیاسی دھرتی یوں ہی پیاسی ہی رہے گی یارو اور دریا پہ مسلسل یہاں بارش ہوگی جس طرح ٹوٹے ہوئے پتے بکھر جاتے ہیں ہم بکھر جائیں اسی طور یہ سازش ...

    مزید پڑھیے

    گمرہی کا مری سامان ہوا جاتا ہے

    گمرہی کا مری سامان ہوا جاتا ہے راستہ زیست کا آسان ہوا جاتا ہے اک طرف روح کہ پرواز کو جیسے تیار اک طرف جسم کہ بے جان ہوا جاتا ہے دشت غربت ہے کہ آباد ہمارے دم سے گھر کا آنگن ہے کہ ویران ہوا جاتا ہے کیوں نہ پھر دھوپ بھی بن جائے گھٹا جب ہم پر آپ کا سایۂ مژگان ہوا جاتا ہے کہہ دیا آپ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3