تو اب حالت میں اپنی یوں بھی تبدیلی نہیں ہوتی
تو اب حالت میں اپنی یوں بھی تبدیلی نہیں ہوتی
یہ مٹی خون بھی پی کر کبھی گیلی نہیں ہوتی
ہوا جاتا ہے قدرت کے اصولوں میں دخیل انساں
ہوا اب تو دسمبر میں بھی برفیلی نہیں ہوتی
چلو آنکھوں سے اب کے بات کر کے دیکھتے ہیں ہم
زباں سے بات تو ہوتی ہے تفصیلی نہیں ہوتی
وہ جو محسوس کرتی ہے بیاں کرتی ہے اب کھل کر
غزل پہلے زمانے جیسی شرمیلی نہیں ہوتی
ہمیں ہے شوق ایسا ٹھوکروں کو آزمانے کا
کہ اس رہ پر نہیں چلتے جو پتھریلی نہیں ہوتی
سنبھل کر اے عبیدؔ خوش گماں رہنا ٹھہر کر یاں
بلا مقصد میاں رسی کبھی ڈھیلی نہیں ہوتی