ہر شکن وقت کی پیشانی پہ رکھی ہوئی ہے

ہر شکن وقت کی پیشانی پہ رکھی ہوئی ہے
ہم نے یوں زندگی آسانی پہ رکھی ہوئی ہے


کچھ بھی کہہ لیجئے بنیاد ہے آخر بنیاد
کیا ہوا گر یہ زمیں پانی پہ رکھی ہوئی ہے


گفتگو کیسے کریں اہل خرد سے کہ وہاں
اپنی ہر بات ہی نادانی پہ رکھی ہوئی ہے


تم نے سمجھا ہے تو بس اتنا ہمیں کہ ہم نے
زندگی یوں ہی پریشانی پہ رکھی ہوئی ہے


اپنی پہچان تو بس یہ ہے کہ پہچان اپنی
ہم نے اجداد کی سلطانی پہ رکھی ہوئی ہے


ہائے کہ جنس گراں بھی ہے لہو انساں کا
اور یہی شے ہے کہ ارزانی پہ رکھی ہوئی ہے


ایک مدت سے ہے دلی میں عبیدالرحمن
یہ نظر اب بھی کہ حیرانی پہ رکھی ہوئی ہے