عجیب بات ہے بیمار ہے نہیں بھی ہے
عجیب بات ہے بیمار ہے نہیں بھی ہے
یہ دل تمہارا طلب گار ہے نہیں بھی ہے
ہیں ممکنات نہاں اس ادا میں شوخی میں
لبوں پہ ان کے جو انکار ہے نہیں بھی ہے
ہے کیسا عزم سفر کیسی چاہت منزل
سفر کو کارواں تیار ہے نہیں بھی ہے
یہ اپنی اپنی سمجھ ہے یہ اپنا اپنا شعور
سفر حیات کا دشوار ہے نہیں بھی ہے
یہ وقت وقت پہ ہے منحصر جو سچ پوچھیں
عبیدؔ آپ کا خوددار ہے نہیں بھی ہے