بغیر سوچے ہوئے عرض حال کرتے رہے

بغیر سوچے ہوئے عرض حال کرتے رہے
جواب کچھ نہ ملا ہم سوال کرتے رہے


کبھی تو ڈوبے ندی میں مگر کبھی ہم نے
سمندروں کو اچھالا کمال کرتے رہے


اسی سے نام ملا ہے اسی سے عزت بھی
جو کام سہل بہت تھے محال کرتے رہے


کھڑے رہے یوں ہی آنکھوں میں اشک جاری کیے
ہر ایک لمحۂ شب لا زوال کرتے رہے


کبھی کسی کی محبت کا دم بھی بھر آئے
یہ ایک کام بھی ہم خال خال کرتے رہے


تو ان کو ہم سے تھا بس ایک یہ تعلق خاص
مری قبا سے لہو اپنا لال کرتے رہے