ہماری زیست کا اک ایک باب کھل جائے
ہماری زیست کا اک ایک باب کھل جائے
خدایا ہم پہ ہماری کتاب کھل جائے
پھر اس کے بعد یہ دشت و دمن بھلا کیا ہیں
جو غور و فکر کریں آفتاب کھل جائے
زمیں پہ راستہ آئے نظر تو کیا ہے عجب
یہ راستہ تو میاں زیر آب کھل جائے
خطیب چیختا ہے روز ہی سر منبر
مجال کیا ہے جو ہم پر خطاب کھل جائے
نہ جانے کب سے در خواب پر ہے قفل پڑا
خدایا اب تو کوئی ہم پہ باب کھل جائے
ہمارے فرض کا دفتر تو کھول ڈالا ہے
ورق حقوق کا بھی اک جناب کھل جائے
عبیدؔ دینا ہے ہم سب کو امتحاں اک دن
دعائیں کیجے کہ ہم پر نصاب کھل جائے