نزہت عباسی کی غزل

    مری صدا کو ہوائیں بھی قید کرتی ہیں

    مری صدا کو ہوائیں بھی قید کرتی ہیں مری نگہ کو فضائیں بھی قید کرتی ہیں جبھی تو کھل کے برستی ہیں ابر کی صورت کہ میرے اشک گھٹائیں بھی قید کرتی ہیں بس ایک حد ہے کہ آگے نکل نہیں پاتے قدم قدم پہ وفائیں بھی قید کرتی ہیں یہ اک حصار بناتی ہیں چار سو میرے مجھے تو تیری دعائیں بھی قید کرتی ...

    مزید پڑھیے

    کہاں ہوں میں اور کہاں نہیں ہوں

    کہاں ہوں میں اور کہاں نہیں ہوں جہاں ہو تم کیا وہاں نہیں ہوں وجود سے میرے ہو نہ منکر میں اک یقیں ہوں گماں نہیں ہوں میں حوصلہ خود ہوں زندگی کا میں کوئی بار گراں نہیں ہوں نہ گوشوارے میں مجھ کو لکھو حساب سود و زیاں نہیں ہوں مرے ہی دم سے شعور ہستی فقط میں رنگ جہاں نہیں ہوں

    مزید پڑھیے

    یاد رکھنے کا بھی وعدہ ہو ضروری تو نہیں

    یاد رکھنے کا بھی وعدہ ہو ضروری تو نہیں بھول جانے کا ارادہ ہو ضروری تو نہیں نام اچھا سا کوئی ہم نے رکھا ہے لکھ کر دل کا کاغذ ابھی سادہ ہو ضروری تو نہیں اس تبسم کو مرے دکھ کی علامت نہ سمجھ یہ کسی غم کا لبادہ ہو ضروری تو نہیں یوں ہی اک بار کبھی ایک نظر ڈالی تھی اس کو احساس زیادہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    دکھ سے خوشیاں کشید کرنا ہے

    دکھ سے خوشیاں کشید کرنا ہے اس طرح ہم کو عید کرنا ہے اپنے ہاتھوں سے دیں گے خود ہی کفن خود ہی دل کو شہید کرنا ہے تجھ سے ملنا ہے اب خیالوں میں تیری خوابوں میں دید کرنا ہے اس کا کہنا ہے مدتوں کے بعد نئے وعدے وعید کرنا ہے اتنی جلدی نہ کر مروت میں ظلم مجھ پہ مزید کرنا ہے

    مزید پڑھیے

    ہماری سادہ دلی تھی تمہاری بات نہیں

    ہماری سادہ دلی تھی تمہاری بات نہیں ہمیں میں کوئی کمی تھی تمہاری بات نہیں ہمارے اپنے ہی دکھ تھے ہمیں کو رونا تھا تمہاری اپنی خوشی تھی تھی تمہاری بات نہیں عذاب سارے جنون و خرد کے میرے تھے تمہیں تو بے خبری تھی تمہاری بات نہیں تمہاری بات ہی مانیں گے اور نبھائیں گے یہ بات تم نے کہی ...

    مزید پڑھیے

    شہر سب حادثوں کی زد میں تھا

    شہر سب حادثوں کی زد میں تھا رات دن سانحوں کی زد میں تھا عکس در عکس بٹ گیا تھا وجود اس قدر آئنوں کی زد میں تھا منزلوں کا سراغ کیا پاتے کہ سفر راستوں کی زد میں تھا روح کے زخم ہی نہ تھے ناسور جسم بھی کرچیوں کی زد میں تھا گو تھا مختار کل مگر انساں کتنی مجبوریوں کی زد میں تھا ایک ...

    مزید پڑھیے

    رویے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں

    رویے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں وہی جو جان سے پیارے ہیں رشتے مار دیتے ہیں کبھی برسوں گزرنے پر کہیں کچھ بھی نہیں ہوتا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لمحے مار دیتے ہیں کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے ادھورے نا مکمل سے یہ قصے مار دیتے ہیں کبھی منزل پہ جانے کے نشاں تک بھی ...

    مزید پڑھیے

    موج دریا کے لبوں پر تشنگی ہے کربلا

    موج دریا کے لبوں پر تشنگی ہے کربلا ریگ ساحل پر تڑپتی زندگی ہے کربلا صبر کی اور ضبط کی یہ منزلیں ہیں آخری عزم اہل بیت کا کیا دیکھتی ہے کربلا حق کبھی جھکتا نہیں ہے سر بھی کٹ جائے اگر ذہن و دل کے واسطے اک آگہی ہے کربلا کیوں سکینہ اور زینب اس قدر خاموش ہیں دور تک صحرا میں دیکھو ...

    مزید پڑھیے

    میلوں میں گھومتے رہے تنہائی بیچ دی

    میلوں میں گھومتے رہے تنہائی بیچ دی پھر یوں ہوا کہ چشم تماشائی بیچ دی سودا کبھی خسارے کا اس نے کیا نہیں شہرت خرید لی کبھی رسوائی بیچ دی بے نام سے تعلق خاطر کے واسطے اک اجنبی کے ہاتھ شناسائی بیچ دی اچھا کیا کہ گرمئ بازار دیکھ کر اونچے لگے جو دام تو گویائی بیچ دی اب بندش نگاہ کی ...

    مزید پڑھیے

    جل کے راکھ ہونے کی کوششیں نہیں ہوتیں

    جل کے راکھ ہونے کی کوششیں نہیں ہوتیں دیر پا بہت دل کی خواہشیں نہیں ہوتیں خود بہ خود ہی کھلتے ہیں دل میں پھول خوشیوں کے دل کو شاد رکھنے کی کاوشیں نہیں ہوتیں دوست بھی صفوں میں ہیں اور اپنے دشمن بھی کامیاب پھر کیسے سازشیں نہیں ہوتیں تخت و تاج مانگے سے کب کسی کو ملتا ہے دل کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3