شہر سب حادثوں کی زد میں تھا
شہر سب حادثوں کی زد میں تھا
رات دن سانحوں کی زد میں تھا
عکس در عکس بٹ گیا تھا وجود
اس قدر آئنوں کی زد میں تھا
منزلوں کا سراغ کیا پاتے
کہ سفر راستوں کی زد میں تھا
روح کے زخم ہی نہ تھے ناسور
جسم بھی کرچیوں کی زد میں تھا
گو تھا مختار کل مگر انساں
کتنی مجبوریوں کی زد میں تھا
ایک انساں ہزار پیمانے
آدمی فلسفوں کی زد میں تھا
سر پہ اک سائباں تھا بوسیدہ
اور گھر بارشوں کی زد میں تھا