زیست کی گھڑیاں کہیں روتے رہے ہنستے رہے

زیست کی گھڑیاں کہیں روتے رہے ہنستے رہے
سادے کاغذ کے لکھے کو عمر بھر پڑھتے رہے


زندگی تجھ سے عبارت ہے مری پہچان ہے
ایک طوطے کی طرح بس یہ سبق رٹتے رہے


ناامیدی کے اندھیروں میں کبھی ڈوبے نہ ہم
چاند کی مانند ہم بڑھتے رہے گھٹتے رہے


زندگی اپنی گزرتی کیوں نہ پھر آرام سے
دوستوں سے ہم اگر توفیق بھر بچتے رہے


گر نہ تھی تقدیر میں شاخ چمن اتنا تو تھا
بن کے تازہ پھول گل دانوں میں ہم سجتے رہے