Noor Parkar

نور پرکار

  • 1942

نور پرکار کی نظم

    التجائے مسافر

    نہ اتنا تیز چلو کہ تھک جاؤ نہ اتنا رک رک کے چلو کہ جم جاؤ نہ کھولو لب یوں بھی نہ ان کو اتنا بند کرو کہ جن پر نہ شبنم بھی ٹھہر پائے نہ دو آواز اتنی آہستہ جسے سننے کے لئے روح بھی ترس جائے نہ اس کو اتنا بڑھاؤ کہ میرا وجود میرے لیے عذاب بن جائے نہ رہو اتنے مسرور کہ میں حاکم وقت بن ...

    مزید پڑھیے

    ساحرؔ لدھیانوی کے لئے

    سحر تھا جس کی باتوں میں نخل ثمر تھا جس کے ہاتھوں میں جادو بیاں ایسا جو بانجھ زمینوں سے فصلیں اگا گیا وجود کی بے معنی کتابوں میں ہمیں درس عبرت دے گیا موت اور زیست کے درمیاں کتنے فاصلے مسدود کر گیا تجربات کا بس اپنے پیالوں میں گھول کر شاخوں میں آنسو کھلا گیا لے آیا وہ سوغات جو زخم ...

    مزید پڑھیے

    فیصلہ

    جس راہ سے گزر کر تم میرے پاس آئی تھیں اسی راہ سے گزر کر کسی طرح تم اب لوٹ جاؤ اب ہمارے درمیاں کوئی دار و رسن نہیں رہے نہ جانے کیوں ہم اب تمہارے غم میں جاگنے کے قائل نہیں رہے مسیح بن کے نکلے تھے لیکن کہیں کوئی قاتل نہیں رہے وقت کے ساتھ ہم نے بھی معیار وفا بدلا ہے تم بھی توڑ دو دلوں ...

    مزید پڑھیے

    بند دریچے

    بند دریچے جب کھلتے ہیں یادوں کی ہلکی سی لہر دل کی چوکھٹ پر ہلکے ہلکے دستک دیتی ہے جانے کیوں یہ من کی کایا چنچل چھایا بن جاتی ہے ایک اک نقش ابھر کر مٹ مٹ جاتا ہے مٹ مٹ کر پھر ابھرا جاتا ہے یہ سب تصویریں ہیں ماضی کی اب ان کا رنگ اڑا جاتا ہے اک وقت تھا میں نے ان میں دل کا خون بھرا ...

    مزید پڑھیے

    احساس

    تم مجھے پانے کے چاہے جتنے جتن کر لو تم با وفا بہ معنی ہو میں تو اک لفظ بے معنی اپنے آپ سے کب ملا ہوں جو تم سے مل لوں تمہیں پا لوں یہ اور بات کہ میرے تخیل کی اساس تو آئینہ تو آئینہ گر بھی تو رضا بھی تو قضا بھی تو ردا بھی تو ادا بھی تو سزا بھی تو جزا بھی تو خودی بھی تو خدا بھی تو لیکن ...

    مزید پڑھیے

    جسم و جاں کا سفر

    تم مجھے یوں ہی رہنے دو میری آہوں کو ہوا کے دوش پر یوں ہی بہنے دو لفظ تو وہ بھی نہیں لفظ تو میں بھی نہیں یہاں لفظ تو کوئی بھی نہیں مگر ہم دونوں میں کوئی فاصلہ بھی نہیں نہ جانے کون ہے وہ جو گئی رات تک میرے اندر جاگتا ہے انگ انگ میں بولتا نس نس میں ڈولتا ہے لہو لہو چیختا ہے جسم و جاں کا ...

    مزید پڑھیے

    وجودیت

    وہ میرے جسم میں ہوتے ہوئے بھی ہر سمت بکھرا ہوا ہے جو زمیں پہ ہے نہ ہوا میں ہے حرف و معنی کی ہر قید سے آزاد رشتہ تری یاد میں گزرا ہر دن نیا ہے جو آئنہ بھی آئنے کا حجاب بھی ہے میرے تخیل سے اس کے ذہن تک نہ کوئی فلک ہے نہ کوئی خلا ہے مستعار فلسفوں سے عاری ہم اپنی کتاب خود خود ہی اپنے کتاب ...

    مزید پڑھیے

    اطہرؔ نفیس کے لئے

    میرا غم معتبر تھا تکلف کی قبا نوچ کر جس نے معصوم رنگ آتشیں بھرا تھا تخلیق کے بند جذبوں کو اخلاق کے ہاتھوں پر دھرا تھا زندگی جس کے لئے دار تھی کوئے دل دار بھی روح کی تفسیر بھی رنگ حنا کی تنویر بھی برداشت جس نے کی آرزوؤں کی تضحیک بھی مقدس جذبات کی تذلیل بھی لبوں پر جس کے کتنے ...

    مزید پڑھیے

    صبح و شام کی شکست

    تم اپنے گھر کی تختی سے اب میرا نام بھی مٹا دینا گو اعتبار حرف نہیں تھام کر عصائے قلم زندگی کا نوحہ لکھ دینا کہ مدرسوں کے آنگن کی ایک کھلی کتاب تم تھیں با شعور کے لئے شعاع نو تبسموں کا روپ لیے یہ چاہت عمر بھر کی کمائی تھی آزاد میں بھی تھا بدن کی تہوں تک تمہیں بھی دھوپ کی چبھن جو دبی ...

    مزید پڑھیے

    واپسی

    سفر کی شرط نئی تم نے باندھی ہے اسی لیے تو ہم نے تمہارے ساتھ چند قدم چل کر واپسی کی ٹھانی ہے گاہے گاہے چلتے تھے نئے سفر کی طرح گرتے گرتے سنبھل بھی جاتے تھے اجنبی کی طرح دور تھی منزل مگر اسے بھی سمجھے ہم چند قدم کی طرح اور ہم نے سوچا تھا سفر سے پہلے کبھی نہ دم لیں گے کسی طرح راستوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2