Noor Parkar

نور پرکار

  • 1942

نور پرکار کے تمام مواد

11 نظم (Nazm)

    التجائے مسافر

    نہ اتنا تیز چلو کہ تھک جاؤ نہ اتنا رک رک کے چلو کہ جم جاؤ نہ کھولو لب یوں بھی نہ ان کو اتنا بند کرو کہ جن پر نہ شبنم بھی ٹھہر پائے نہ دو آواز اتنی آہستہ جسے سننے کے لئے روح بھی ترس جائے نہ اس کو اتنا بڑھاؤ کہ میرا وجود میرے لیے عذاب بن جائے نہ رہو اتنے مسرور کہ میں حاکم وقت بن ...

    مزید پڑھیے

    ساحرؔ لدھیانوی کے لئے

    سحر تھا جس کی باتوں میں نخل ثمر تھا جس کے ہاتھوں میں جادو بیاں ایسا جو بانجھ زمینوں سے فصلیں اگا گیا وجود کی بے معنی کتابوں میں ہمیں درس عبرت دے گیا موت اور زیست کے درمیاں کتنے فاصلے مسدود کر گیا تجربات کا بس اپنے پیالوں میں گھول کر شاخوں میں آنسو کھلا گیا لے آیا وہ سوغات جو زخم ...

    مزید پڑھیے

    فیصلہ

    جس راہ سے گزر کر تم میرے پاس آئی تھیں اسی راہ سے گزر کر کسی طرح تم اب لوٹ جاؤ اب ہمارے درمیاں کوئی دار و رسن نہیں رہے نہ جانے کیوں ہم اب تمہارے غم میں جاگنے کے قائل نہیں رہے مسیح بن کے نکلے تھے لیکن کہیں کوئی قاتل نہیں رہے وقت کے ساتھ ہم نے بھی معیار وفا بدلا ہے تم بھی توڑ دو دلوں ...

    مزید پڑھیے

    بند دریچے

    بند دریچے جب کھلتے ہیں یادوں کی ہلکی سی لہر دل کی چوکھٹ پر ہلکے ہلکے دستک دیتی ہے جانے کیوں یہ من کی کایا چنچل چھایا بن جاتی ہے ایک اک نقش ابھر کر مٹ مٹ جاتا ہے مٹ مٹ کر پھر ابھرا جاتا ہے یہ سب تصویریں ہیں ماضی کی اب ان کا رنگ اڑا جاتا ہے اک وقت تھا میں نے ان میں دل کا خون بھرا ...

    مزید پڑھیے

    احساس

    تم مجھے پانے کے چاہے جتنے جتن کر لو تم با وفا بہ معنی ہو میں تو اک لفظ بے معنی اپنے آپ سے کب ملا ہوں جو تم سے مل لوں تمہیں پا لوں یہ اور بات کہ میرے تخیل کی اساس تو آئینہ تو آئینہ گر بھی تو رضا بھی تو قضا بھی تو ردا بھی تو ادا بھی تو سزا بھی تو جزا بھی تو خودی بھی تو خدا بھی تو لیکن ...

    مزید پڑھیے

تمام