جسم و جاں کا سفر
تم
مجھے یوں ہی رہنے دو
میری آہوں کو
ہوا کے دوش پر
یوں ہی بہنے دو
لفظ تو وہ بھی نہیں
لفظ تو میں بھی نہیں
یہاں لفظ تو کوئی بھی نہیں
مگر ہم دونوں میں کوئی فاصلہ بھی نہیں
نہ جانے کون ہے وہ
جو گئی رات تک
میرے اندر جاگتا ہے
انگ انگ میں بولتا
نس نس میں ڈولتا ہے
لہو لہو چیختا ہے
جسم و جاں کا یہ سفر کتنا دشوار ہے
مجھے
دن کے بازار سے خریدے ہوئے
اس ابن آدم کی جستجو ہے
جو بے نشاں راستو پر
مجھے قتل کر دے
مجھے اس حادثے کی تلاش ہے
جو مجھے ابھی ختم کر دے
یا پھر
میری روح کی اذاں کا
کوئی تعاقب کرے
دعاؤں کی تفسیر میں
پل پل نظریں بچھائے
وفا کی آگ سے روشن
چراغ طور لیے
کسی دیوار کے لب سے کوئی نغمہ سنائے
ہمہ وقت محبت جتائے
لیکن میں تو
اس صدی کے قرض کا سود ہوں
جس کی ادائیگی ممکن نہ ہو سکے گی
نہ رک سکے گی پگھلتی موم جسموں کی
نہ کھنکے گی چوڑی نہ گلی جاگے گی
تمہارے آنگن سے
اتری ہوئی دھوپ
میرے آنگن تک کو پہنچی ہے
لیکن مجھے یقین ہے
کہ وہ پھر فضاؤں میں کھو جائے گی
اک دن سناٹے میں ڈوب جائے گی