وجودیت

وہ میرے جسم میں ہوتے ہوئے بھی
ہر سمت بکھرا ہوا ہے
جو زمیں پہ ہے نہ ہوا میں ہے
حرف و معنی کی ہر قید سے آزاد رشتہ
تری یاد میں گزرا ہر دن نیا ہے
جو آئنہ بھی
آئنے کا حجاب بھی ہے
میرے تخیل سے اس کے ذہن تک
نہ کوئی فلک ہے نہ کوئی خلا ہے
مستعار فلسفوں سے عاری
ہم اپنی کتاب خود
خود ہی اپنے کتاب خواں
میں ہوں دھوپ تو وہ چھانو ہے
فاصلہ ایک ہے دونوں جانب
کہ اس عدم کو ابھی ہست ہونا ہے
نہ کوئی سر پہ کھڑا ابر
نہ گھنی چھانو کا سایہ ہے
جو میرے ازل سے میرے ابد تک
میرا ہم سفر بن گیا ہے
وہ میرے جسم میں ہوتے ہوئے بھی
ہر سمت بکھرا ہوا ہے