التجائے مسافر
نہ اتنا تیز چلو کہ تھک جاؤ
نہ اتنا رک رک کے چلو کہ جم جاؤ
نہ کھولو لب یوں بھی
نہ ان کو اتنا بند کرو
کہ جن پر نہ شبنم بھی ٹھہر پائے
نہ دو آواز اتنی آہستہ
جسے سننے کے لئے روح بھی ترس جائے
نہ اس کو اتنا بڑھاؤ
کہ میرا وجود میرے لیے عذاب بن جائے
نہ رہو اتنے مسرور
کہ میں حاکم وقت بن جاؤں
نہ رہو اداس اتنے
کہ میں وقت سے پہلے ہی بے موت مر جاؤں
نہ اس قدر بکھراؤ اپنی زلفوں کو
کہ گھنے گھنے سائے بھی سہم جائیں
نہ ان کو اتنا سنوارو
کہ چلتے لوگ راہ میں رک جائیں
نہ رہو اتنے دور کہ میں ترس جاؤں
نہ آؤ اتنے قریب کہ میں جھلس جاؤں
نہ اتنا تیز چلو کہ تھک جاؤ
نہ اتنا رک رک کے چلو کہ جم جاؤ