صبح و شام کی شکست

تم
اپنے گھر کی تختی سے
اب میرا نام بھی مٹا دینا
گو اعتبار حرف نہیں
تھام کر عصائے قلم
زندگی کا نوحہ لکھ دینا
کہ
مدرسوں کے آنگن کی
ایک کھلی کتاب تم تھیں
با شعور کے لئے شعاع نو
تبسموں کا روپ لیے
یہ چاہت عمر بھر کی کمائی تھی
آزاد میں بھی تھا بدن کی تہوں تک
تمہیں بھی دھوپ کی چبھن جو
دبی خواہشوں کو سینکتی تھی
مگر تم نے
اپنے راستوں سے بے خبر
برسوں کی ریاضتیں دفن کرکے
رفاقتیں ختم کر دیں
عظمتیں نیلام
نسلیں بے نام کر دیں
برہنہ خواہشوں کی سولی پہ لٹکتا پیکر
غم کی دلدل کو بڑھاتا ہے
بے شمار دریا کا ذائقہ بھی
حلق تر نہیں کرتا
لہو کے ساحل پر
ایک ایک لمحہ بے اماں گزرتا ہے
یقین جانو
دیار فکر میں کوئی ہم زباں نہیں
پھر بھی میں
اپنے جنوں میں ثابت قدم ہوں
جاگتی آنکھوں کو
اس کے گھر لوٹ آنے کا انتظار رہتا ہے
سنا ہے
گجردم سسکیاں لے کر
اندھیرا ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے