Nivesh Sahu

نویش ساہو

نویش ساہو کی غزل

    اک رنج دل کے جس سے سوا چاہتا نہیں

    اک رنج دل کے جس سے سوا چاہتا نہیں کچھ بھی ہو پھر میں اس کی جگہ چاہتا نہیں اس کو بھی میں طلب ہوں مگر مجھ سے کچھ جدا کوئی بھی مجھ کو میری طرح چاہتا نہیں اکتا چکا ہوں روح کی لا فانیت سے پر وہ جسم ہوں کے راہ فنا چاہتا نہیں کوئی بھی تیرے زخم سی تاثیر کیسے دے لیکن میں اس کا اور مزہ ...

    مزید پڑھیے

    مرا چہرہ ہی الہامی نہیں تھا

    مرا چہرہ ہی الہامی نہیں تھا کے آنکھیں تھیں مگر پانی نہیں تھا نگاہیں بس تمہارے ضبط پہ تھیں میں ورنہ اس قدر ضدی نہیں تھا کسی دستک پہ میری نیند ٹوٹی مگر میں سو گیا دل ہی نہیں تھا سر دیوار چیخیں چیختی تھیں پس دیوار کوئی بھی نہیں تھا جلن یہ کہہ رہی تھی جسم میرا تمہارے لمس سے خالی ...

    مزید پڑھیے

    لوگ کہتے ہیں اک صدا ہوں میں

    لوگ کہتے ہیں اک صدا ہوں میں خیر خود ہی میں گونجتا ہوں میں آنکھ جیسے کئی دریچہ ہے اور اندر سے جھانکتا ہوں میں تو نے چاہا تھا گھیر لے مجھ کو دیکھ باہوں میں آ گیا ہوں میں اپنے سائے سے پوچھ لیتا ہوں کیا ترے ساتھ چل رہا ہوں میں تیری باتوں میں ہو گیا ہوں گم اپنی آواز کھو چکا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    یہ مجھے کیسا گماں ہے کون سی تشکیک ہے

    یہ مجھے کیسا گماں ہے کون سی تشکیک ہے دور بھی ہو جائے تو لگتا ہے تو نزدیک ہے میں تو تیرے بولنے پر خوش ہوں خود پر فخر کر تو مری چپ سے دکھی ہے یہ مری تضحیک ہے سب کو دینے والے اب تو حق رسانی کر مری ورنہ تب تک جو ملے گا میں کہوں گا بھیک ہے دیکھ میری چشم بد کا تیرگی سے اختلاط دیکھ میری ...

    مزید پڑھیے

    صدا رہی ہو بھلے کتنی بے قرار اس کی

    صدا رہی ہو بھلے کتنی بے قرار اس کی مجھی تک آ کے رکی ہے صدا پکار اس کی چمن گوارہ کرے عمر خوش گواری میں کھلا رہی ہے جو گل شاخ نو بہار اس کی گزرتا ہے تو عجب خوشبوئیں بکھیرتا ہے قدم قدم پہ مہکتی ہے رہ گزار اس کی تھمائے تھمتا نہیں درد میرے سینہ کا رکائے رکتی نہیں آنسوؤں کی دھار اس ...

    مزید پڑھیے

    روح تک آ کہ مجھے اس کا سہارا ہے بہت

    روح تک آ کہ مجھے اس کا سہارا ہے بہت جسم مت چھیڑ مجھے جسم نے مارا ہے بہت چاند کی کس کو طلب ہے کہ یہاں تاریکی اس قدر ہے کہ مجھے ایک ستارہ ہے بہت میری جانب سے صدا اور صدا اور صدا اس کی جانب سے فقط ایک اشارہ ہے بہت میں ہوں خوابوں کی ہوا تو ہے حقیقت کا چراغ پاس ہوں دونوں تو اس میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    اڑانیں لے اڑیں شہ پر ہمارے

    اڑانیں لے اڑیں شہ پر ہمارے محاذ عشق ہے اور سر ہمارے برائے ضد ہمیں تعمیر کرکے بہت پچھتائے کوزہ گر ہمارے بدن چھو کر عدو کا لوٹ آئے ہمیں سے آ لگے پتھر ہمارے رہائی مل گئی تھی ہم کو لیکن اکھاڑے جا چکے تھے پر ہمارے پڑے ہیں ساحلوں پہ ریت ہو کر سمندر کھا گیا گوہر ہمارے تمہارے آنسوؤں ...

    مزید پڑھیے

    ہماری قسمت میں کیا لکھا ہے پتہ نہیں ہے (ردیف .. ن)

    ہماری قسمت میں کیا لکھا ہے پتہ نہیں ہے سنا ہے محنت کا فلسفہ ہے پتہ نہیں ہے تو اپنی دنیا سے میری دنیا بسار بیٹھا یا اب بھی مجھ میں ہی مبتلا ہے پتہ نہیں ہے بتا کہ عورت کے سب مسائل کا حل ہے آنسو یا اس کا آنسو ہی مسئلہ ہے پتہ نہیں ہے پتہ نہیں ہے کہ ہم کو دراصل کیا پتہ ہے کہ ہم کو دراصل ...

    مزید پڑھیے

    اے خدائے وہم میں تھک گیا یہ نظام سوچتے سوچتے

    اے خدائے وہم میں تھک گیا یہ نظام سوچتے سوچتے تری راہ دیکھتے دیکھتے ترا نام سوچتے سوچتے تو خیال ہے کہ سرائے ہے جہاں آ گیا تو میں بس گیا مجھے رہ گئے مرے جسم کے در و بام سوچتے سوچتے نہ یہاں کا ہوں نہ وہاں کا ہوں تو کہاں کا ہوں مجھے یہ بتا یہ میں کس مقام پہ آ گیا وہ مقام سوچتے ...

    مزید پڑھیے

    مری تاریکیوں سے بھاگتا میں

    مری تاریکیوں سے بھاگتا میں تمہاری روشنی سے آ لگا میں دیے جیسا بدن ڈھانپے ہوئے تھا ہوا ہونے کا دم بھرتا ہوا میں ہزاروں پیڑ ہیں اس دشت میں اور ہزاروں میں کہیں تنہا کھڑا میں بدن ہوں روح کے اس دائرے میں اور اپنی روح کا ہوں دائرہ میں ہوا میں جذب پانی سوکھ لوں گا تمہاری خاک سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3