اے خدائے وہم میں تھک گیا یہ نظام سوچتے سوچتے
اے خدائے وہم میں تھک گیا یہ نظام سوچتے سوچتے
تری راہ دیکھتے دیکھتے ترا نام سوچتے سوچتے
تو خیال ہے کہ سرائے ہے جہاں آ گیا تو میں بس گیا
مجھے رہ گئے مرے جسم کے در و بام سوچتے سوچتے
نہ یہاں کا ہوں نہ وہاں کا ہوں تو کہاں کا ہوں مجھے یہ بتا
یہ میں کس مقام پہ آ گیا وہ مقام سوچتے سوچتے
کہاں کون سمت سے آ گئی مرے واسطے یہ صدائے قم
کہاں کون سمت میں چل دیے مرے گام سوچتے سوچتے
یہی سوچنا تو عذاب ہے مری ذات کا مری ذات پر
کہ شروع سب مرے ہو گئے ہیں تمام سوچتے سوچتے