صدا رہی ہو بھلے کتنی بے قرار اس کی
صدا رہی ہو بھلے کتنی بے قرار اس کی
مجھی تک آ کے رکی ہے صدا پکار اس کی
چمن گوارہ کرے عمر خوش گواری میں
کھلا رہی ہے جو گل شاخ نو بہار اس کی
گزرتا ہے تو عجب خوشبوئیں بکھیرتا ہے
قدم قدم پہ مہکتی ہے رہ گزار اس کی
تھمائے تھمتا نہیں درد میرے سینہ کا
رکائے رکتی نہیں آنسوؤں کی دھار اس کی
سنوارتا ہے بہت خم تو اس کی زلفوں کے
کبھی تو بہر خدا عادتیں سدھار اس کی
قبا میان ہے اس کی کہ بھول سے بھی کہیں
کسی بدن کو نہ لگ جائے تیز دھار اس کی