Nivesh Sahu

نویش ساہو

نویش ساہو کی غزل

    زمیں پر معجزہ کرنے کی سازش

    زمیں پر معجزہ کرنے کی سازش بتوں کو دیوتا کرنے کی سازش ہمارا چیخنا جسموں کے اندر خموشی کو سدا کرنے کی سازش درختوں پر بنانا نقشہ دل کے انہیں گویا ہرا کرنے کی سازش کشادہ اک قفس ہے آسماں بھی اسے کیجے خلا کرنے کی سازش ہمیں سے منزلوں کا کام لینا ہمیں کو راستہ کرنے کی سازش یہ ہر ...

    مزید پڑھیے

    غنیمت ہے کسی کے سر نہیں ہوں

    غنیمت ہے کسی کے سر نہیں ہوں ابھی تک گھر سے میں بے گھر نہیں ہوں ابھی دیوار سے گزرا تو جانا میں اپنے جسم کے اندر نہیں ہوں یہ اچھی بات ہے تم سامنے ہو میں یعنی خواب سے باہر نہیں ہوں میں چاروں اور سے ہوں بند کمرہ فقط دیوار ہوں میں در نہیں ہوں اگر ہوتا تو خود کو پھر بناتا مگر افسوس ...

    مزید پڑھیے

    دماغ پھر سا گیا ہے کچھ ایک سالوں سے

    دماغ پھر سا گیا ہے کچھ ایک سالوں سے خیال بھی نہیں ملتے ہیں ہم خیالوں سے رہا ہوا جو میں زنجیر کار دنیا سے تو کھیلتا رہا شب بھر کسی کے بالوں سے مرا حبیب اداسی کی اور بڑھتا گیا وہ مطمئن ہی نہیں تھا مری مثالوں سے کوئی جواب نہیں ان اداس آنکھوں کا مجھے بھی بھاگنا پڑتا ہے ان سوالوں ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو زحمت سے لکھے جاتے ہیں ہم

    یوں تو زحمت سے لکھے جاتے ہیں ہم خیر مصرعوں میں کہاں آتے ہیں ہم ذہن میں چیخیں رکھا کرتے ہیں پر اس کی خاموشی سے گھبراتے ہے ہم اب کریں جھگڑا مناسب ہی نہیں عشق میں بوڑھے ہوئے جاتے ہیں ہم ہوش میں آتے ہی ہو جاتے ہیں چپ اور بے ہوشی میں چلاتے ہیں ہم کس طرح کی وسعتیں رکھتا ہے تو کس طرح ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3