Nivesh Sahu

نویش ساہو

نویش ساہو کی غزل

    اڑنے کی ضد تو چھوڑ ہوا کی ہوس نہیں

    اڑنے کی ضد تو چھوڑ ہوا کی ہوس نہیں ہم دو پرندے عمر سے اہل قفس نہیں تیرے بدن کے تاب سے ہے درمیاں امس لیکن تجھے جدا کروں ایسی امس نہیں ہم لا مکاں ہیں کیا جو ترے در پہ ہیں کھڑے اور اس قدر عذاب میں بھی ٹس سے مس نہیں ایسی سیاہ رات کے نیندوں سے خوف ہو ایسا سفید خواب کے آنکھوں پہ بس ...

    مزید پڑھیے

    اپنی غیرت کے علاوہ کہیں دیکھے نہ گئے

    اپنی غیرت کے علاوہ کہیں دیکھے نہ گئے خود سے نکلے تھے مگر غیر کے پیچھے نہ گئے تم کو افسوس تمہیں ٹھیک بنایا نہ گیا اور ایک ہم کے ابھی چاک‌ پہ رکھے نہ گئے اک ستم یہ کے ہمیں وصل میں آیا نہ سکوں اک ستم یہ کے ترے ہجر بھی دیکھے نہ گئے سنگ اس کے تو محبت میں سلیقے سے کٹی بعد اس کے بھی بدن ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی تو نہیں ترک کے امکان ہوئے ہیں

    یوں ہی تو نہیں ترک کے امکان ہوئے ہیں کچھ جان کے ہی تجھ سے ہم انجان ہوئے ہیں ہم تیرے جتانے سے ہیں غمگین وگرنہ ہم پر تو کئی مرتبہ احسان ہوئے ہیں آزاد پرندوں کی طرف دیکھ رہا ہوں اس قید سے کیا کیا نہیں نقصان ہوئے ہیں ہم تلخ ہوئے خود سے کئی روز بلا وجہ تب جا کے ہر اک شخص پہ آسان ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    وہ اک جھلک وہ موج مجھ میں آ کے سب بہا گئی

    وہ اک جھلک وہ موج مجھ میں آ کے سب بہا گئی درخت جانے کیا ہوئے ندی کہاں سما گئی جہاں میں یہ عجب نہیں دیا جلے ہوا چلے بس اس پے غور کیجئے دیا بجھا ہوا گئی مرے چلائے تیر جانے کیسے مجھ کو آ لگے مری اڑائی خاک مجھ کو خاک میں ملا گئی فریب عشق میں جو تھی بدن کو اک بدن کی بھوک یہ بھوک اتنی ...

    مزید پڑھیے

    جو کرتے تھے الٹا سیدھا کرتے تھے

    جو کرتے تھے الٹا سیدھا کرتے تھے ہم پتھر پہ دریا پھینکا کرتے تھے اس جنگل کے پیڑوں سے میں واقف ہوں گر جاتے تھے جس پر سایہ کرتے تھے میں بستی میں تتلی پکڑا کرتا تھا باقی سارے لوگ تو جھگڑا کرتے تھے کچھ بچے سیلابوں میں بہہ جاتے ہیں ہم پلکوں سے دریا روکا کرتے تھے جاؤ کوئی تار وار ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو نہ جانتا مری دانائی جانتا

    مجھ کو نہ جانتا مری دانائی جانتا کوئی تو میری بات کی گہرائی جانتا خود کو سمیٹ لاتا بڑے احتیاط سے گر میں مرے خیال کی یکجائی جانتا اب تک جو میرے ساتھ ہوا سب برا ہوا ورنہ مجھے یقیں ہے میں اچھائی جانتا بے صبر ہو کے کوئی کہیں مر گیا تو ٹھیک ورنہ یہاں پہ کون شکیبائی جانتا تیرے وصال ...

    مزید پڑھیے

    اڑانیں لے اڑیں شہ پر ہمارے

    اڑانیں لے اڑیں شہ پر ہمارے محاذ عشق ہے اور سر ہمارے برائے ضد ہمیں تعمیر کر کے بہت پچھتائے کوزہ گر ہمارے بدن چھو کر عدو کا لوٹ آئے ہمیں سے آ لگے پتھر ہمارے رہائی مل گئی تھی ہم کو لیکن اکھاڑے جا چکے تھے پر ہمارے پڑے ہیں ساحلوں پہ ریت ہو کر سمندر کھا گیا گوہر ہمارے تمہارے آنسوؤں ...

    مزید پڑھیے

    میرا اسباب سفر دھوپ ہوا کرتی تھی

    میرا اسباب سفر دھوپ ہوا کرتی تھی میں جدھر جاؤں ادھر دھوپ ہوا کرتی تھی اس محلے میں بھٹکتا تھا مرے من کا سفیر جس میں اڑتی سی خبر دھوپ ہوا کرتی تھی چھاؤں کے بعد کی خواہش بھی ہوا کرتی تھی چھاؤں دھوپ کے بعد کا ڈر دھوپ ہوا کرتی تھی کیا ہوئے اب وہ محبت کی شروعات کے روز جب یہاں آٹھ پہر ...

    مزید پڑھیے

    مجھ میں پیوست ہو چکی ہو تم

    مجھ میں پیوست ہو چکی ہو تم میرے اندر کی خامشی ہو تم کیا فقط شوق رہ گیا ہوں میں کس طرح بات کر رہی ہو تم خاص یہ ہے کے میں نہیں بدلہ اور دلچسپ کے وہی ہو تم اتنا اندازۂ سفر ہے مجھے آخری موڑ پہ کھڑی ہو تم کس قدر چیخنے لگا ہوں میں کتنی خاموش ہو گئی ہو تم خواب میں کیا دکھائی پڑتا ...

    مزید پڑھیے

    دریا سے اختلاط ہے ہم رو نہیں رہے

    دریا سے اختلاط ہے ہم رو نہیں رہے رونا ہماری ذات ہے ہم رو نہیں رہے اس بد دماغ دل نے کیا ضبط کا بھی خون یہ صرف واردات ہے ہم رو نہیں رہے کتنے دنوں کے بعد خوشی سے ملے ہیں ہم پھر بھی عجیب بات ہے ہم رو نہیں رہے یہ دن بھی کوئی دن تھا عجب خوش گوار دن یہ رات کوئی رات ہے ہم رو نہیں رہے رونے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3