حاشیے پر لکھی ہوئی ہوں میں

حاشیے پر لکھی ہوئی ہوں میں
امن کی بات آخری ہوں میں


میں وہیں ہوں جہاں ملے تھے ہم
کس قدر پیچھے رہ گئی ہوں میں


اس سے کہنا تھا بھول جاؤ مجھے
فون پر فون کر رہی ہوں میں


جب وہ گہنے دکھانے آتی ہے
اس کے سب چھید دیکھتی ہوں میں


بیچ کر زیورات شادی کے
چند خوشیاں خریدتی ہوں میں


تم گرا کر مجھے سنبھل نہ سکے
اور گر کر سنبھل گئی ہوں میں


پتھروں کو بتا دیا ہے نا
اپنے بابا کی لاڈلی ہوں میں