ناز نظامی کی غزل

    کب طبیعت کو راس آئے ہیں

    کب طبیعت کو راس آئے ہیں یہ جو دل پر غموں کے سائے ہیں رہزنوں سے نہیں کوئی شکوہ رہبروں سے فریب کھائے ہیں سرد راتوں میں سرد آہوں نے اشک آنکھوں ہی میں جمائے ہیں چاندنی نے سفید مخمل پر آج جادو کئی جگائے ہیں حیف یہ نیتوں کے کھوٹے لوگ آپ ہی اپنا گھر جلائے ہیں وقت کی کیا ستم ظریفی ...

    مزید پڑھیے

    کیوں دلوں کا سکوں لٹا آخر

    کیوں دلوں کا سکوں لٹا آخر لوگ کیا کر گئے خطا آخر ہو گیا وہ بھی بے وفا آخر جس کا ڈر تھا وہی ہوا آخر جانے والی صدی سے پوچھے کون خون کیوں اس قدر بہا آخر کیوں نگاہیں بدل گئیں تیری کیا خطا میں نے کی بتا آخر وقت آخر یہ دین کی باتیں یاد آیا انہیں خدا آخر دل خانہ خراب کے ہاتھوں زندگی ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ ڈھلی تو شام ہوئی

    دھوپ ڈھلی تو شام ہوئی گویا عمر تمام ہوئی بارش پیاسے صحرا میں حیف برائے نام ہوئی کیا لازم اصلی ہو چیز شہرت جس کی عام ہوئی ظالم کی بیداد گری مظلوموں کے نام ہوئی یادوں نے جب دستک دی میٹھی نیند حرام ہوئی قسمت ہی نے منہ موڑا ہر کوشش ناکام ہوئی نازؔ کہوں کیا عمر مری نذر خیال خام ...

    مزید پڑھیے

    ناامیدی کی بات مت کرنا

    ناامیدی کی بات مت کرنا ضائع اپنی حیات مت کرنا غیرت دل کا یہ تقاضا ہے دن کو تسلیم رات مت کرنا کیسے کہہ دو گے ذہن آدم سے فکر کل کائنات مت کرنا چاندنی میں نہائے پھولوں کو نذر تاریک رات مت کرنا دشت میرے جنوں کو کہتا ہے میری وسعت کو مات مت کرنا ایک مدت کے بعد سویا ہوں زور سے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسے موڑ پہ حالات آج لائے مجھے

    یہ کیسے موڑ پہ حالات آج لائے مجھے کہ میرے اپنے بھی لگتے ہیں اب پرائے مجھے کوئی تو بات ہے میں سہما سہما رہتا ہوں کوئی خیال ہے جو ہر گھڑی ستائے مجھے خطائیں خود کروں الزام دوں مقدر کو عجیب بات ہے پھر بھی نہ شرم آئے مجھے میں جانتا ہوں یہ منزل بھی اور رستہ بھی مگر طریق سفر اجنبی ...

    مزید پڑھیے

    وہ ماہر زبان و بیاں ماہر سخن

    وہ ماہر زبان و بیاں ماہر سخن غالب کے ہم نوا وہ شناسائے علم و فن تاثیر تھی زباں میں تو گفتار پرکشش اب بھی مجھے ہے یاد وہ لہجے کا بانکپن عابد معلمی کو عبادت سمجھتے تھے تحقیق تھی عمامہ تو تنقید پیرہن خود ان ہی کے جلائے چراغوں کے نور سے علم و عمل کی آج بھی روشن ہے انجمن

    مزید پڑھیے

    ریزہ ریزہ عزم سفر ہے

    ریزہ ریزہ عزم سفر ہے دھندلی دھندلی راہ گزر ہے پھیکا پھیکا رنگ بہاراں سونا سونا ہر منظر ہے آدھی رات صدا کس نے دی شمع بجھا دو وقت سحر ہے اڑتی ریت کا کیا مستقبل اک صحرا تا حد نظر ہے قتل چھپے گا آخر کیسے خون ادھر ہے داغ ادھر ہے جال بچھا ہے ہر گوشے میں کہتے ہو صیاد کدھر ہے نازؔ ...

    مزید پڑھیے

    جہان رنگ و بو میں کیا نہیں ہے

    جہان رنگ و بو میں کیا نہیں ہے مگر کوئی کہیں تجھ سا نہیں ہے بہت پھیلا ہے یہ شہر تمنا یہاں ممکن سکوں پانا نہیں ہے ہنسے جو آبلہ پائی پہ تیری وہ تیرا ہم سفر تیرا نہیں ہے نہ اترا اس قدر باد خزاں تو کوئی پتا ابھی سوکھا نہیں ہے نہیں کوئی نہیں ہے میرے جیسا مرا سایہ بھی مجھ جیسا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ بھی نہیں کہ بالا و برتر نہیں ہوں میں

    یہ بھی نہیں کہ بالا و برتر نہیں ہوں میں مانا کہ مشت خاک سے بڑھ کر نہیں ہوں میں کافی ہے اک کرن بھی مٹانے کے واسطے شبنم ہوں برگ گل پہ سمندر نہیں ہوں میں کیوں کر قفس میں مجھ کو نہ آئے چمن کی یاد بے بال و پر ضرور ہوں بے گھر نہیں ہوں میں ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کر گیا پھر بھی وہ کہہ ...

    مزید پڑھیے