کب طبیعت کو راس آئے ہیں
کب طبیعت کو راس آئے ہیں
یہ جو دل پر غموں کے سائے ہیں
رہزنوں سے نہیں کوئی شکوہ
رہبروں سے فریب کھائے ہیں
سرد راتوں میں سرد آہوں نے
اشک آنکھوں ہی میں جمائے ہیں
چاندنی نے سفید مخمل پر
آج جادو کئی جگائے ہیں
حیف یہ نیتوں کے کھوٹے لوگ
آپ ہی اپنا گھر جلائے ہیں
وقت کی کیا ستم ظریفی ہے
جو تھے اپنے وہی پرائے ہیں
میری ہمت کو مرحبا کہئے
آندھیوں میں دئے جلائے ہیں
نازؔ تاریکیٔ توہم میں
علم ہی نے دیے جلائے ہیں