ناامیدی کی بات مت کرنا

ناامیدی کی بات مت کرنا
ضائع اپنی حیات مت کرنا


غیرت دل کا یہ تقاضا ہے
دن کو تسلیم رات مت کرنا


کیسے کہہ دو گے ذہن آدم سے
فکر کل کائنات مت کرنا


چاندنی میں نہائے پھولوں کو
نذر تاریک رات مت کرنا


دشت میرے جنوں کو کہتا ہے
میری وسعت کو مات مت کرنا


ایک مدت کے بعد سویا ہوں
زور سے کوئی بات مت کرنا


بے ضمیروں کی ذات میں شامل
نازؔ تو اپنی ذات مت کرنا