دھوپ ڈھلی تو شام ہوئی
دھوپ ڈھلی تو شام ہوئی
گویا عمر تمام ہوئی
بارش پیاسے صحرا میں
حیف برائے نام ہوئی
کیا لازم اصلی ہو چیز
شہرت جس کی عام ہوئی
ظالم کی بیداد گری
مظلوموں کے نام ہوئی
یادوں نے جب دستک دی
میٹھی نیند حرام ہوئی
قسمت ہی نے منہ موڑا
ہر کوشش ناکام ہوئی
نازؔ کہوں کیا عمر مری
نذر خیال خام ہوئی