یہ بھی نہیں کہ بالا و برتر نہیں ہوں میں
یہ بھی نہیں کہ بالا و برتر نہیں ہوں میں
مانا کہ مشت خاک سے بڑھ کر نہیں ہوں میں
کافی ہے اک کرن بھی مٹانے کے واسطے
شبنم ہوں برگ گل پہ سمندر نہیں ہوں میں
کیوں کر قفس میں مجھ کو نہ آئے چمن کی یاد
بے بال و پر ضرور ہوں بے گھر نہیں ہوں میں
ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کر گیا
پھر بھی وہ کہہ رہا ہے ستم گر نہیں ہوں میں
کوہ غم و الم کو کیا میں نے پاش پاش
یوں دیکھیے تو آہن و پتھر نہیں ہوں میں
میں تیرا ایک پرتو فانی جہاں میں ہوں
گویا یہ طے ہے اتنا بھی کمتر نہیں ہوں میں
تاریک راستوں میں کہا راہبر نے نازؔ
عزم سفر کے نور سے بڑھ کر نہیں ہوں میں