دسمبر اور یاد
دسمبر کی ہوا کے سنگ کچھ انجان سی یادیں بہت ویران سی یادیں مرے دل سے گزر کر چاند کی برفیلی سیڑھی پر اچانک بیٹھ کر سرگوشیوں میں رات کرتی ہیں مگر وہ جاتے جاتے میرے ذہن و دل کو پگھلا دیتی ہیں اکثر
دسمبر کی ہوا کے سنگ کچھ انجان سی یادیں بہت ویران سی یادیں مرے دل سے گزر کر چاند کی برفیلی سیڑھی پر اچانک بیٹھ کر سرگوشیوں میں رات کرتی ہیں مگر وہ جاتے جاتے میرے ذہن و دل کو پگھلا دیتی ہیں اکثر
زمانے بھر کے دکھ لے کر محبت کو جنم میں نے دیا ہے
اپنی ذات میں رہنے والی اپنے لئے ہی انجانی میں کوئی عکس مکمل ہے جو میری روح خلا میں اکثر مجھ کو آوازیں دیتا ہے میرے جسم میں جیسے آگ بھری ہے
بہت ہی گہرا سناٹا ہے روح خلا میں خود کو جو میں ڈھونڈھنا چاہوں گم ہو جاتی ہوں میں اس میں کون ہے میری ذات کے اندر اک تو میں ہوں دوجا کون چھپا ہے مجھ میں
ترے بن زندگی سے خوف آتا ہے ترے بن عمر کی صورت فقط اک موت جیسی ہے
شب کا ایک بجا ہے اور میری آنکھوں میں جیسے پیاسا سورج آگ آیا ہے یادوں کا آدھی رات ہوئی ہے اور یادوں کی دھوپ ابھی تک ڈھلی نہیں ہے
ہمارے درد سانجھے ہیں کہ ہم اکھڑے ہوئے دو پیڑ گرتے جا رہے ہیں لمحہ لمحہ اب ہمارے روگ سانجھے ہیں کہ ہم اندھے سمے میں اپنی روحیں ہی گنوا بیٹھے ہمارے جوگ سانجھے ہیں کہ ہم اپنے بدن میں کھوجتے ہیں خود کو ہر ساعت ہمارے درد سانجھے ہیں ہمارے روگ سانجھے ہیں ہمارا ہجر سانجھا ہے ہمارا وصل ...
مرے سینے میں تیری دھڑکنوں کا شور ہر لمحہ مجھے پاگل بناتا ہے