دسمبر اور یاد
دسمبر کی ہوا کے سنگ کچھ انجان سی یادیں بہت ویران سی یادیں مرے دل سے گزر کر چاند کی برفیلی سیڑھی پر اچانک بیٹھ کر سرگوشیوں میں رات کرتی ہیں مگر وہ جاتے جاتے میرے ذہن و دل کو پگھلا دیتی ہیں اکثر
دسمبر کی ہوا کے سنگ کچھ انجان سی یادیں بہت ویران سی یادیں مرے دل سے گزر کر چاند کی برفیلی سیڑھی پر اچانک بیٹھ کر سرگوشیوں میں رات کرتی ہیں مگر وہ جاتے جاتے میرے ذہن و دل کو پگھلا دیتی ہیں اکثر
زمانے بھر کے دکھ لے کر محبت کو جنم میں نے دیا ہے
اپنی ذات میں رہنے والی اپنے لئے ہی انجانی میں کوئی عکس مکمل ہے جو میری روح خلا میں اکثر مجھ کو آوازیں دیتا ہے میرے جسم میں جیسے آگ بھری ہے
بہت ہی گہرا سناٹا ہے روح خلا میں خود کو جو میں ڈھونڈھنا چاہوں گم ہو جاتی ہوں میں اس میں کون ہے میری ذات کے اندر اک تو میں ہوں دوجا کون چھپا ہے مجھ میں
ترے بن زندگی سے خوف آتا ہے ترے بن عمر کی صورت فقط اک موت جیسی ہے