نوید ملک کی نظم

    دستک

    ہر طرف کیوں ہے دھواں خیمۂ جاں میں لرزتے ہیں دیے خواہش کے اور کسی لو کو سرکنے کی اجازت بھی نہیں کسی امید کا در کھلتا نہیں کسی قرطاس پہ کھلتے نہیں روشن لہجے کیا اجالوں کے صحیفوں کو مسیحا نے جلا ڈالا ہے کیوں درختوں نے پرندوں کے ترانوں میں اداسی پھونکی آؤ اک عہد کریں کوئی تابوت ...

    مزید پڑھیے

    چراغ اگنے کے دن نہیں ہیں

    زماں کی گردش خطوط جتنے بھی امن و الفت کے تم نے ہم کو دیے ہیں اب تک ذرا رکو تو ہمیں بتاؤ تمہارے لفظوں کی آستینوں میں کیا چھپا ہے وہ کوہ قافی قبیلہ جس نے نئے زمانوں کو سرخ چادر سے ڈھانپ لینے کا حکم صادر کیا ہے پھر سے وہ نوچتا ہے ان آئنوں کو کہ جن پہ سورج کا عکس چھلکے تو روشنی ہو خدا کے ...

    مزید پڑھیے

    تماشے

    سنا ہے اس نے تماشوں میں آنکھ کھولی تھی جو آج سب کو ہنساتا ہے مسخروں کی طرح قدیم دور کے کچھ نقش اس کے چہرے پر نئے زمانوں کے نوحے سنا رہے ہیں ہمیں جدید عہد میں کتنے تماشے ہو رہے ہیں ڈرون حملے دھماکے تباہی اور جنگیں ہم ان تماشوں کے ہر مسخرے کو جانتے ہیں تماشہ کرتے ہوئے قہقہے لگاتے ...

    مزید پڑھیے

    اشک تارا کرو

    وقت کی آستینوں میں پلتے ہوئے قہقہے جھاڑ دو اپنے لب گاڑ دو آئنوں میں بکھرتی ہوئی اپنی بے چہرگی کے ٹہلتے ہوئے سائے پر مسکراہٹ اجالو نئی صبح تعمیر کرنے کا چارہ کرو استخارہ کرو ساری افسردگی اور سراسیمگی سنسناتے ہوئے اپنی قامت سے گھٹ کر کئی منہدم دائروں میں بدل جائے گی یہ جو حالات ...

    مزید پڑھیے

    چیک

    آج تنخواہ کا چیک ملا لمحہ بھر میرے چہرے پہ خوشیوں کی کرنیں بکھرنے لگیں فون کی گھنٹیوں نے اندھیرے میں بدلا سماں میں اداسی کے صحرا میں پل بھر کو خیمے میں تنہا رہا یک دم اپنے پلٹنے پہ امید نے اک سہارا دیا ٹھیک ہے ٹھیک ہے قرض دینا ہے جن جن کا دے دوں گا میں شکر ہے مجھ سے شکوہ نہ کوئی کرے ...

    مزید پڑھیے

    کون سمجھے تجھے

    شاعری تو پرندوں کی چونچوں پہ اگتی ہوئی نغمگی تو درختوں کی چھاؤں میں پلتی ہوئی سادگی تو بہاروں کے دامن میں بکھری ہوئی بے خودی تو سلگتے سوالوں کے باطن میں بہکی ہوئی آرزو تو ہے معصوم بچے کی آنکھوں میں حیرت کدہ کون سمجھے تجھے تیرگی روشنی زندگی بے بسی آدمی اور اک کامنی کون تیری زباں ...

    مزید پڑھیے

    تم تو بچے نہیں

    تم مرو تم تو بچے نہیں تم تو مسجد کے قیدی ہو قرآن پڑتے رہو سجدے کرتے رہو یہ جو پیکر تمہارا ہے اس میں لہو کی جگہ زہر ہے یہ جو مندر میں بچے ہمکتے ہیں بچے نہیں یہ کلیسا میں بے داغ بچے بھی بچے نہیں یہ جو مسلک کی کھیتی میں کھلتے ہیں بچے یہ بچے نہیں اپنے پومی کو دیکھ آؤں میں کال آئی ہے ...

    مزید پڑھیے

    تعلق اب بجھا دو

    مرے جگنو رکو اپنے بدن سے میری خوشبو جھاڑ ڈالو تعلق چند گھنٹوں کے لیے مجھ سے بجھا دو اور اپنی آنکھ میں اجلے دنوں کے نقش کھینچو مری باتوں کا ہر اک لمس دھو ڈالو مرے جگنو کبھی اسکول میں یہ مت بتانا کہ ہوں مزدور کا بیٹا وگرنہ سارے بچے بوجھ بستوں کا تمہارے کاندھوں کاندھوں گاڑیں گے مرے ...

    مزید پڑھیے

    آؤ ہم رقص کریں

    آؤ ہم رقص کناں شہر طلسمات میں جذبات کے رنگوں سے زمانے کی نگاہیں بھر دیں آؤ ہم رقص کریں ہم وہ کردار ہیں جو کئی صدیوں کا سفر کاٹ کے آئے ہیں یہاں سبز جھیلوں پہ عیاں عکس ہمارے ہی تو ہیں آؤ خوابوں کو کسی لے میں پروتے ہیں غزل کہتے ہیں جس میں ہوں درد سبھی ہم ہیں گم گشتہ صداؤں کے خزینے جو ...

    مزید پڑھیے

    مرے خواب سو جا

    مرے خواب سو جا مری آنکھ میں تیرتی خانقاہوں میں اب سانس لیتے ہوئے سارے درویش مٹی کی خوشبو کو ترسے ہوئے ہیں مجھے تو نے جتنے زمانوں کی دھوپوں سے دھویا ہے اب تک وہ نفرت عداوت سے گوندھی ہوئی ہیں جو صدیوں کے چہرے دکھائے ہیں تو نے وہ سب کھردرے ہیں مری نیندیں ان سے ادھڑنے لگی ہیں مرے خواب ...

    مزید پڑھیے