چراغ اگنے کے دن نہیں ہیں

زماں کی گردش
خطوط جتنے بھی امن و الفت کے تم نے ہم کو دیے ہیں اب تک
ذرا رکو تو
ہمیں بتاؤ
تمہارے لفظوں کی آستینوں میں کیا چھپا ہے
وہ کوہ قافی قبیلہ جس نے
نئے زمانوں کو سرخ چادر سے ڈھانپ لینے کا
حکم صادر کیا ہے پھر سے
وہ نوچتا ہے ان آئنوں کو
کہ جن پہ سورج کا عکس چھلکے تو روشنی ہو
خدا کے گھر میں
خراب حالوں نے درس دینے کی ٹھان لی ہے
ہمارے آنسو بھی کچھ خساروں کو جذب کر کے
ہزاروں سجدوں پہ جم گئے ہیں
ہر اک گلی میں ہے شور اتنا
اذانیں گھر تک پہنچ نہ پائیں
ہماری تہذیب اور روایت مری پڑی ہے
ہر ایک گنبد پہ سرد لہجے سجے ہوئے ہیں
ہے درج ان پر
یہ لوگ سارے جہنمی ہیں
ہمارے بچے نماز پڑھنے سے ڈر رہے ہیں
نگاہیں سب کی تماش بینوں نے بانٹ لی ہیں
حرا سے آتی ہوئی ہواؤں کو بوسہ دینے کی آرزو میں
بہت سے رستوں نے دھول پھونکی
بہت سے گھوڑوں نے جاں گنوا دی
زماں کی گردش
ہے یاد ہم کو
عرب کی مٹی پہ دھوپ برسی تو آگ بھڑکی
فلک سے اتری تھیں آبشاریں
بہت سے فتنے بھی جل بجھے تھے
وہی دھواں پھر سے اٹھ رہا ہے
زمیں پہ جن نے بقا کا پرچم اٹھا رکھا ہے
شریر بچے ہیں کوفیوں کے
زماں کی گردش
ذرا سنو تو
بہت ہیں طوفاں زمیں ہے بنجر
مری صدا کے نحیف شعلے گواہ رہنا
گواہ رہنا
چراغ اگنے کے دن نہیں ہیں چراغ اگنے کے دن نہیں ہیں