تماشے
سنا ہے اس نے تماشوں میں آنکھ کھولی تھی
جو آج سب کو ہنساتا ہے مسخروں کی طرح
قدیم دور کے کچھ نقش اس کے چہرے پر
نئے زمانوں کے نوحے سنا رہے ہیں ہمیں
جدید عہد میں کتنے تماشے ہو رہے ہیں
ڈرون حملے دھماکے تباہی اور جنگیں
ہم ان تماشوں کے ہر مسخرے کو جانتے ہیں
تماشہ کرتے ہوئے قہقہے لگاتے ہوئے
یہ مسخرے ہمیں جام اجل پلا دیں گے
یہ ہونے والے تماشے ہمارے بچوں کو
نہ جانے کون سے سرکس میں لا کھڑا کر دیں
ہماری آنکھ سے مٹتے ہوئے حسیں منظر
انہی تماشوں کے اندر کہیں بھٹک رہے ہیں