Nasir Basheer

ناصر بشیر

ناصر بشیر کی غزل

    اک شخص کو سنا تھا کبھی بولتے ہوئے

    اک شخص کو سنا تھا کبھی بولتے ہوئے اس روز سے لبوں پہ ہیں تالے پڑے ہوئے خالی لفافے بھیجتے رہتے ہیں ہم اسے الماریوں میں بند ہیں سب خط لکھے ہوئے منزل سے دور رہنے کا دکھ کس لئے نہ ہو اک عمر ہو گئی ہمیں گھر سے چلے ہوئے کالک چھپائی جا نہ سکی جن سے سوچ کی وہ بھی پہن کے آئے ہیں کپڑے دھلے ...

    مزید پڑھیے

    واعظ‌ تند‌ خو کو دے بادہ و جام ساقیا

    واعظ‌ تند‌ خو کو دے بادہ و جام ساقیا تاکہ وہ ہوش میں کرے تجھ سے کلام ساقیا سارے خطیب شہر کے تیرے خلاف ہو گئے تیرا نصیب ہو گئی شہرت عام ساقیا ہم کو بھی کچھ پتا چلے بزم میں کون کون ہے آج عطائے جام ہو نام بنام ساقیا تو نے کہا تو رو دیے تو نے کہا تو ہنس دیے شہر کے سارے بادہ کش تیرے ...

    مزید پڑھیے

    کسی آواز کے پیچھے گئے ہیں

    کسی آواز کے پیچھے گئے ہیں نہ جانے کس طرف بچے گئے ہیں بہت کچھ ہم نے بدلا ہے اگرچہ مقدر عرش پر لکھے گئے ہیں تجارت گاہ دنیا کا نہ پوچھو یہاں انسان تک بیچے گئے ہیں گھنے اشجار بھی رستے میں آئے مگر ہم ہیں کہ بس چلتے گئے ہیں بسوئے آب پیاسے خواب لے کر ہم اپنے سائے سے پہلے گئے ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    قریۂ وہم و گماں تک آئے

    قریۂ وہم و گماں تک آئے ہم ترے ساتھ کہاں تک آئے اپنی کم ظرفی کا اظہار کروں راز سر بستہ زباں تک آئے بات کر دی تو پشیمانی کیا تیر واپس نہ کماں تک آئے پیاس جو اپنی بجھانا چاہے حلقۂ تشنہ‌ لباں تک آئے ابھی جاری ہے نہیں کی گردان دیکھیے کیسے وہ ہاں تک آئے مطمئن پھرتے ہیں یوں صحرا ...

    مزید پڑھیے

    میں خواب گہ ذات کے اندر نہیں رہتا

    میں خواب گہ ذات کے اندر نہیں رہتا انسان ہوں ماحول سے کٹ کر نہیں رہتا مل جاتی ہے ملبے سے کسی نام کی تختی دستار تو رہتی ہے مگر سر نہیں رہتا وہ پھول ہے گلچیں کی رسائی نہیں اس تک آہو ہے مگر تیر کی زد پر نہیں رہتا اس وقت ستاتی ہے ہمیں نیند کی دیوی جب ایک ستارہ بھی فلک پر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زنجیر انتظار سے مجھ کو رہا کرے

    زنجیر انتظار سے مجھ کو رہا کرے اب کے برس تو آن ملے وہ خدا کرے اک اور اینٹ گر گئی دیوار عمر کی ہر روز مجھ سے ڈوبتا سورج کہا کرے آتے ہیں اور لوگ کدالیں سنبھال کر مینارۂ بدن سے کہو آسرا کرے جب دوستوں کے رابطے بھی دشمنوں سے ہوں مشکل پڑے تو کس سے کوئی مشورہ کرے کمزور ہوں پر اتنا ...

    مزید پڑھیے

    ہر لمحہ ہم نے بات رکھی ہے یہ دھیان میں

    ہر لمحہ ہم نے بات رکھی ہے یہ دھیان میں اک داستان اور بھی ہے داستان میں یاروں نے ایک آن میں مجھ کو گرا لیا کوتاہ رہ گیا تھا میں اپنی اڑان میں کیلیں سی چبھ رہی ہیں بدن میں شعاعوں کی کس نے کیے ہیں چھید مرے سائبان میں آنکھوں کی خامشی میں سمندر کا شور تھا لکنت سی پڑ گئی تھی ہماری ...

    مزید پڑھیے

    اندر کا آدمی کبھی باہر نہ آ سکا

    اندر کا آدمی کبھی باہر نہ آ سکا جو دل کا مدعا تھا زباں پر نہ آ سکا ہر لمحہ اشک بار رہی ہے ہماری آنکھ معمول پر کبھی یہ سمندر نہ آ سکا نکلے تھے یوں تو لوگ تعاقب میں بے شمار لیکن کوئی بھی تیرے برابر نہ آ سکا اے شہر یار میرا تو دامن تھا چھید چھید اچھا ہوا کہ میں ترے در پر نہ آ ...

    مزید پڑھیے

    چپ کھڑا ہے آسماں

    چپ کھڑا ہے آسماں کیا خدا ہے آسماں لوگ سو چکے مگر جاگتا ہے آسماں رہنا ہے زمین پر سوچنا ہے آسماں جو بھی کر رہے ہیں ہم دیکھتا ہے آسماں تجھ سے مل کے یوں لگا چھو لیا ہے آسماں کون اس زمین پر رکھ گیا ہے آسماں روز اک نئی زمیں اک نیا ہے آسماں شہر کا مکین بھی ڈھونڈھتا ہے آسماں میرے ...

    مزید پڑھیے

    صبح کچھ شام کچھ خیال رہا

    صبح کچھ شام کچھ خیال رہا یہ محبت میں اپنا حال رہا جنوری میں کبھی دسمبر میں ذکر تیرا تمام سال رہا میں تجھے آج بھی نہیں سمجھا تو مرے واسطے سوال رہا میں کہ آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تو کہ چہرے کو ہے سنبھال رہا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2