میں خواب گہ ذات کے اندر نہیں رہتا

میں خواب گہ ذات کے اندر نہیں رہتا
انسان ہوں ماحول سے کٹ کر نہیں رہتا


مل جاتی ہے ملبے سے کسی نام کی تختی
دستار تو رہتی ہے مگر سر نہیں رہتا


وہ پھول ہے گلچیں کی رسائی نہیں اس تک
آہو ہے مگر تیر کی زد پر نہیں رہتا


اس وقت ستاتی ہے ہمیں نیند کی دیوی
جب ایک ستارہ بھی فلک پر نہیں رہتا


اسباب سفر لے کے نکلتے نہیں گھر سے
اس واسطے لٹنے کا ہمیں ڈر نہیں رہتا


ہر شخص کی باتوں سے یہ اندازہ ہوا ہے
اس شہر میں کوئی بھی قد آور نہیں رہتا


کشتی کا سفر اچھا لگا ہے مجھے ناصرؔ
اب پیش نظر ایک ہی منظر نہیں رہتا