اندر کا آدمی کبھی باہر نہ آ سکا

اندر کا آدمی کبھی باہر نہ آ سکا
جو دل کا مدعا تھا زباں پر نہ آ سکا


ہر لمحہ اشک بار رہی ہے ہماری آنکھ
معمول پر کبھی یہ سمندر نہ آ سکا


نکلے تھے یوں تو لوگ تعاقب میں بے شمار
لیکن کوئی بھی تیرے برابر نہ آ سکا


اے شہر یار میرا تو دامن تھا چھید چھید
اچھا ہوا کہ میں ترے در پر نہ آ سکا


خالی رہا ہے کاسۂ چشم اپنا عمر بھر
حصے میں اپنے ایک بھی منظر نہ آ سکا