کسی آواز کے پیچھے گئے ہیں
کسی آواز کے پیچھے گئے ہیں
نہ جانے کس طرف بچے گئے ہیں
بہت کچھ ہم نے بدلا ہے اگرچہ
مقدر عرش پر لکھے گئے ہیں
تجارت گاہ دنیا کا نہ پوچھو
یہاں انسان تک بیچے گئے ہیں
گھنے اشجار بھی رستے میں آئے
مگر ہم ہیں کہ بس چلتے گئے ہیں
بسوئے آب پیاسے خواب لے کر
ہم اپنے سائے سے پہلے گئے ہیں
ہم اپنے گھر نہیں لے جا سکے کچھ
ہمیشہ راہ میں لوٹے گئے ہیں