زنجیر انتظار سے مجھ کو رہا کرے
زنجیر انتظار سے مجھ کو رہا کرے
اب کے برس تو آن ملے وہ خدا کرے
اک اور اینٹ گر گئی دیوار عمر کی
ہر روز مجھ سے ڈوبتا سورج کہا کرے
آتے ہیں اور لوگ کدالیں سنبھال کر
مینارۂ بدن سے کہو آسرا کرے
جب دوستوں کے رابطے بھی دشمنوں سے ہوں
مشکل پڑے تو کس سے کوئی مشورہ کرے
کمزور ہوں پر اتنا بھی کمزور میں نہیں
دشمن بھی رات دن مرے حق میں دعا کرے
جو آپ دیوتا وطن شاعری کا ہو
مجھ ایسا کم ہنر اسے حیران کیا کرے
گزرے ہوئے دن ایک دفعہ آئے ہیں ضرور
ناصر بشیرؔ دل سے کہو حوصلہ کرے