قریۂ وہم و گماں تک آئے

قریۂ وہم و گماں تک آئے
ہم ترے ساتھ کہاں تک آئے


اپنی کم ظرفی کا اظہار کروں
راز سر بستہ زباں تک آئے


بات کر دی تو پشیمانی کیا
تیر واپس نہ کماں تک آئے


پیاس جو اپنی بجھانا چاہے
حلقۂ تشنہ‌ لباں تک آئے


ابھی جاری ہے نہیں کی گردان
دیکھیے کیسے وہ ہاں تک آئے


مطمئن پھرتے ہیں یوں صحرا میں
جیسے ہم آب رواں تک آئے


ہم بہاروں کی طلب میں ناصرؔ
آخرش شہر خزاں تک آئے