ہر لمحہ ہم نے بات رکھی ہے یہ دھیان میں

ہر لمحہ ہم نے بات رکھی ہے یہ دھیان میں
اک داستان اور بھی ہے داستان میں


یاروں نے ایک آن میں مجھ کو گرا لیا
کوتاہ رہ گیا تھا میں اپنی اڑان میں


کیلیں سی چبھ رہی ہیں بدن میں شعاعوں کی
کس نے کیے ہیں چھید مرے سائبان میں


آنکھوں کی خامشی میں سمندر کا شور تھا
لکنت سی پڑ گئی تھی ہماری زبان میں


لیتے ہیں سانس بھی تو ذرا سوچ سوچ کر
ہم لوگ رہ رہے ہیں کسی کے مکان میں


کس نے بکھیر دی ہیں فضا میں اداسیاں
کس نے بھرا ہے درد پرندے کی تان میں


کچھ لوگ اشک اشک تھے کچھ تھے مثال نجم
کچھ گم ہوئے زمین میں کچھ آسمان میں


ہم نقد جسم و جاں سے خریدیں گے کیا بھلا
کچھ بھی تو اب نہیں ہے تمہاری دکان میں