چپ کھڑا ہے آسماں

چپ کھڑا ہے آسماں
کیا خدا ہے آسماں


لوگ سو چکے مگر
جاگتا ہے آسماں


رہنا ہے زمین پر
سوچنا ہے آسماں


جو بھی کر رہے ہیں ہم
دیکھتا ہے آسماں


تجھ سے مل کے یوں لگا
چھو لیا ہے آسماں


کون اس زمین پر
رکھ گیا ہے آسماں


روز اک نئی زمیں
اک نیا ہے آسماں


شہر کا مکین بھی
ڈھونڈھتا ہے آسماں


میرے واسطے کوئی
بن گیا ہے آسماں


جانے کس کے سوگ میں
رو رہا ہے آسماں