ناشر نقوی کی غزل

    دلوں کے سوختہ اجڑے مکاں سے

    دلوں کے سوختہ اجڑے مکاں سے یہ مت پوچھو دھواں اٹھا کہاں سے جہاں آواز تھک کر بیٹھ جائے مجھے آواز دینا تم وہاں سے ابھی تک پاؤں کا کانٹا نہ نکلا سکوں میں ڈھونڈ کر لاؤں کہاں سے ان آنکھوں میں بسی ہے روشنی سی گزر کر آئے ہیں ہم کہکشاں سے مہک آتی نہیں دھرتی کی ان سے اٹھا لے جاؤ رنگوں کو ...

    مزید پڑھیے

    ڈوبتے سورج جیسا منظر لگتا ہے

    ڈوبتے سورج جیسا منظر لگتا ہے ہجر میں بوجھل آنکھوں سے ڈر لگتا ہے گھس آتا ہے گھور اندھیرا شام ڈھلے چاند جب آ جاتا ہے تو گھر لگتا ہے وہ تو غموں کے بیچ بھی ہنستا رہتا ہے اس کا سراپا نور کا پیکر لگتا ہے جیون میں ہر شام سویرا اور سہی کہاں کہاں پر اپنا بستر لگتا ہے سب کے مکاں شیشے کے ...

    مزید پڑھیے

    پھل جو انگنائی کی دیواروں سے باہر آئیں گے

    پھل جو انگنائی کی دیواروں سے باہر آئیں گے اے درختو سوچ لو تم پر بھی پتھر آئیں گے ہر قدم چونکائیں گے جو منزلوں کی راہ میں سوچ کر چلنا یہاں ایسے بھی منظر آئیں گے بس اسی امید پر کاٹے ہیں ہم نے روز و شب کچھ نئے جگنو چمکتے اپنے بھی گھر آئیں گے ہم یہاں پہنچے ہیں رکھ کر اپنے ہی سینے پہ ...

    مزید پڑھیے

    اک ایسا زندگی کا ضابطہ تشکیل کر آیا

    اک ایسا زندگی کا ضابطہ تشکیل کر آیا جو سنگ ذات تھا میں اس کو سنگ میل کر آیا نہ حرف و لفظ ہی رکھے نہ ہے صوت و صدا ان میں بس اک سادے ورق پر زندگی تحلیل کر آیا مسیحائی کے چرچے حشر تک یوں ہی مرے ہوں گے صدائے قم بہ اذن اللہ کو انجیل کر آیا جو تیری بات تھی مالک بیاں کر دی زمانے سے جو ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک صبح تمنا کا شہر سجتا ہے

    ہر ایک صبح تمنا کا شہر سجتا ہے ہر ایک شب نئی دنیا بسائی جاتی ہے اسی کا نام زمانے نے رکھ لیا آنسو یہ میری پیاس جو آنکھوں میں آئی جاتی ہے ہر ایک ذہن میں ہوتا ہے رنگ خاک وطن زمیں کی خوشبو ضمیروں میں پائی جاتی ہے بچیں تو کیسے بچیں اپنے سائے سے ناشرؔ بدن کی دھوپ منڈیروں تک آئی جاتی ...

    مزید پڑھیے

    نا قابل بیان خطاؤں سے ڈر گئے

    نا قابل بیان خطاؤں سے ڈر گئے یہ بھی ہوا ہے لوگ دعاؤں سے ڈر گئے کیا کیا گماں نہ تھے ہمیں دیوار و در کے بیچ اونچائیوں پہ جا کے خلاؤں سے ڈر گئے مجمع میں کر رہے تھے جو بے خوفیوں کی بات تنہا ہوئے تو اپنی صداؤں سے ڈر گئے چنگاریوں کے کھیل میں دامن جلا لیا بھڑکی جو آگ تیز ہواؤں سے ڈر ...

    مزید پڑھیے

    تھپک کے وقت تمناؤں کو سلا دے گا

    تھپک کے وقت تمناؤں کو سلا دے گا مگر یہ رات کا سورج تو پھر جگا دے گا تھکن کا بوجھ نہ شب کی منڈیر پر رکھو نہیں تو نظروں سے ذوق طلب گرا دے گا سبھا میں سچ کی یدھشٹھر بھی ہوگا شرمندہ دروپدی کو یہ انصاف اور کیا دے گا نہ پھینک میری طرف سنگ بد گمانی کے بکھر کے آئنہ ماحول کو ڈرا دے گا جو ...

    مزید پڑھیے

    خامشی رکھی تو چاہت بڑھ گئی

    خامشی رکھی تو چاہت بڑھ گئی میری چپ سے اس کی ہمت بڑھ گئی جب تلک تنہا تھا گھر میں شاد تھا بزم میں آیا تو وحشت بڑھ گئی اپنی بدنامی سے ظالم شاد ہے ہو گیا رسوا تو شہرت بڑھ گئی تھا یہ خود غرضی کا اک رد عمل میرے لہجے کی بغاوت بڑھ گئی میرے خط پر اس کا آنسو گر گیا بات چھوٹی تھی عبارت بڑھ ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک اجنبی بن کر نکل گیا یارو

    ہر ایک اجنبی بن کر نکل گیا یارو ہمارا شہر بھی کتنا بدل گیا یارو وہ آدمی جو زمانہ بدل گیا یارو حصار وقت سے آگے نکل گیا یارو میں ایک قطرہ ہوں میری بساط ہی کیا ہے قریب شام تو سورج پگھل گیا یارو کبھی جو آگ کے دریا کو پھاند جاتا تھا وہ آج اپنے چراغوں سے جل گیا یارو کسی کی بزم میں ...

    مزید پڑھیے

    جواب بن نہ سکا عرض حال ہی نہ کیا

    جواب بن نہ سکا عرض حال ہی نہ کیا اسے گھٹن ہے کہ میں نے سوال ہی نہ کیا ہم ایسے پیڑ کہ سورج نہ چھاؤں روک سکا جھلستی دھوپ میں اپنا خیال ہی نہ کیا ادا خلوص سے کی ہم نے رسم ترک وفا اداس ہی نہ ہوئے اور ملال ہی نہ کیا ادھر تھا شور جفا انتظار رد عمل ادھر سکوت تھا چہرے کو لال ہی نہ کیا سفر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2