اک ایسا زندگی کا ضابطہ تشکیل کر آیا

اک ایسا زندگی کا ضابطہ تشکیل کر آیا
جو سنگ ذات تھا میں اس کو سنگ میل کر آیا


نہ حرف و لفظ ہی رکھے نہ ہے صوت و صدا ان میں
بس اک سادے ورق پر زندگی تحلیل کر آیا


مسیحائی کے چرچے حشر تک یوں ہی مرے ہوں گے
صدائے قم بہ اذن اللہ کو انجیل کر آیا


جو تیری بات تھی مالک بیاں کر دی زمانے سے
جو تیرا حکم تھا اس حکم کی تعمیل کر آیا


مرا ہر شعر ناشرؔ زندگی کا ترجمہ ٹھہرا
سخن میں ڈھال کر قصے کو با تفصیل کر آیا